• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر سے ہر سال لاکھوں سیاح یورپ کے انتہائی خوبصورت قلعے اور محلات دیکھنے کے لیے وہاں کا رُخ کرتے ہیں، جو اپنے دور کے طرز تعمیر کے نمائندہ اور یورپی تاریخ کی اہم علامات سمجھے جاتے ہیں۔ ان قلعے اور محلات میں سیاحوں کو وہاں کا ماضی پوری شان و شوکت سے دکھائی دیتا ہے۔ 

قرون وسطیٰ کے دور میں مختلف یورپی شہر قلعہ بند ہوتے تھے۔ شہروں کے گرد بہنے والے دریاؤں کے پل علیحدہ کیے جاسکتے تھے اور شہروں کے اِرد گرد بلند دیواریں بھی تعمیر کی جاتی تھیں۔ آئیے یورپ کے چند شاندار قلعے اور محلات کا ذکر کرتے ہیں۔

نیو شوانسٹائن قلعہ، جرمنی

جرمنی کے صوبے باویریا میں انتہائی مشہور نیو شوانسٹائن قلعہ (Neuschwanstein Castle)دیکھ کر کسی بھی انسان کا تخیل پرواز کرنے لگتا ہے۔ نیو شوانسٹائن قلعے کی تعمیر کا آغاز ڈیڑھ صدی قبل اس وقت ہوا تھا، جب5ستمبر 1869ء کو اس دور کے باویرین بادشاہ لُڈوِگ دوئم نے اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ یہ منصوبہ اس دور کا مہنگا ترین تعمیراتی منصوبہ تھا اور اس کا شمار جرمنی کے انتہائی خوبصورت محلات اور قلعوں میں ہوتا ہے۔

باویریا کے بادشاہ لُڈوِگ دوئم کے لیے اس قلعے کی کشش اتنی زیادہ تھی کہ وہ اپنی معمول کی شاہی مصروفیات سے دور جب تخلیے کا خواہش مند ہوتا تھا اور اپنے خوابوں کی دنیاؤں میں سفر کرنا چاہتا تھا تو اسی قلعے میں قیام کیا کرتا تھا۔ 

جرمنی کا یہ قلعہ اتنا مشہور ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے آج تک 60ملین یا چھ کروڑ سے زائد سیاح وہاں جا چکے ہیں۔ اس قلعے کو اس کی اصلی حالت میں رکھنے کے لیے ماہرین کی طرف سے تزئین و مرمت کا کام بھی جاری ہے، جو 2022ء میں مکمل ہو گا۔ 

اس قلعے کو شاہی خاندان سے باہر کے افراد، عام شائقین اور مہمانوں کے لیے 130برس قبل کھولا گیا تھا۔یہ جرمنی میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں میں مقبول ان قابل دید مقامات میں بھی بہت آگے ہے، جن کی ہر سال سب سے زیادہ تصویریں بنائی جاتی ہیں۔ 

اپنے پس منظر، قدرتی حسن، ارد گرد کے ماحول، طرز تعمیر اور مجموعی خوبصورتی کی وجہ سے نیو شوانسٹائن قلعہ دیکھنے میں بھی ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی سچ مچ کا تعمیراتی شاہکار نہ ہو بلکہ پریوں کی کسی دیومالائی کہانی کا اچانک سامنے آ جانے والا حصہ ہو، جو دیکھنے والے کو اپنے جادو کی گرفت میں لے لیتا ہو۔

لندن ٹاور، برطانیہ

یہ قلعہ عام طور پر لندن ٹاور کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس قلعے کی مختلف ادوار میں مختلف شناخت رہی ہیں۔ کبھی یہ شاہی محل بنا تو کبھی اسلحے کا گودام بنا دیا گیا۔ کبھی جنگی جانوروں کا ٹھکانہ بنایا گیا تو کبھی قید خانے کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ یہ تقریباً ایک ہزار برس قبل تعمیر کیا گیا تھا۔

مقدس فرشتے کا محل، اٹلی

یہ قلعہ پوپ کلیمنٹ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ انھوں نے روم سے فرار ہو کر1527ء میں اس قلعے میں پناہ لی تھی کیونکہ رومی سلطنت کے فوجیوں نے روم شہر کو تاراج کر دیا تھا۔ اس قلعے کی باقیات آج بھی دریائے ٹیبر کے کنارے واقع ہیں۔ اسے رومی سلطنت کے بادشاہ ہاڈریان کے مزار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، جو 138قبل مسیح میں فوت ہوا تھا۔

لوکیٹ قلعہ، جمہوریہ چیک

لیجنڈری جرمن شاعر ژوہان وولفگانگ فان گوئٹے اس قلعے کو کم از کم دس مرتبہ دیکھنے گئے تھے۔ انھوں نے28اگست1823ء کو اپنی 74ویں سالگرہ بھی اسی پُروقار قلعے میں منائی۔ سالگرہ کی تقریب میں اُلریکے نامی نوجوان عورت اور اُس کا خاندان بھی شامل تھا، جس سے ژوہان وولفگانگ فان گوئٹے شادی کرنا چاہتے تھے۔ اُلریکے نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اس محبت پر اُن کی لکھی ہوئی نظم Marienbad Elegy ایک شاہکار ہے۔

واویل محل، پولینڈ

پولینڈ کے شہر کاراکاؤ کے قریب سے گزرنے والے دریا وسٹولا کے کنارے پر واقع ایک پہاڑی پر واویل محل تعمیر کیا گیا تھا۔ کاراکاؤ برسوں پولستانی بادشاہت کا صدرمقام رہا۔ اس قلعے کا اولین ڈھانچہ دسویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعے کو پولش تاریخ کا ایک اہم باب قرار دیا جاتا ہے۔

ہوہنسولرن قلعہ، جرمنی

ہوہنسولرن قلعہ(Hohenzollern castle)سطعح سمندر سے855میٹر کی بلندی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ سوابی الپس کی ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ اس کو ہوہنسولرن خاندان کا قدیمی شاہی گھر قرار دیا جاتا تھا۔ اسی خاندان نے پرشیا پر 1525ء سے 1818ء تک حکومت کی تھی۔ یہ قلعہ یورپ کے پرشکوہ قلعوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس قلعے میں موجود شاہی دور کی یادگاریں خاص طور پر سیاحوں کی دلچسپی کی حامل ہیں۔

تازہ ترین