• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کیلئے ضروری ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی المیہ سےآگاہ ہو،نفیس زکریا

لندن (نیوز ڈیسک ) کشمیر پر یوم سیاہ کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں مقررین نے 5 اگست 2019 سے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں 8ملین کشمیریوں کے محاصرہ اور بدترین انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری کو بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں دھیرے دھیرے سلگتی ہوئی وادی اور مستقل نسل کشی پر متنبہ کیا۔ سیمینار کا اہتمام ہائی کمشنر نے کشمیر بلیک ڈے کے سلسلے میں کیا تھا جو کہ ہرسال 27 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1947 میں بھارتی فوجیں غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوئیں اور پٹیالہ ٹروپس کے ہمراہ پہلے ہی غیرقانونی طور پر کشمیر میں موجود ہیں، ڈوگرا فورسز اور آر ایس ایس کے دہشتگردوں نے 300000 سے زائد کشمیریوں کی نسل کشی کی اور ایک ملین سے زیادہ کو بے گھر کردیا۔ اس موقع پر ہائی کمشنر نے اپنے خطاب میں کشمیر کے پرانے تنازع کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ کشمیر میں جاری انسانی بحران کا آغاز بی جے پی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو اٹھائے گئے غیر قانونی اقدام سے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے پرانے تنازع کی نوعیت میں تبدیلی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس میں کشمیریوں سے حق خود ارادی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مسٹر زکریا نے کہا کہ بھارتی فورسز نے انسانیت کے خلاف لاتعداد جرائم کئے ہیں، جن میں 1989 کے بعد دو درجن سے زائد قتل عام، پشپورا، کنن میں کشمیری مسلم خواتین کی اجتماعی آبروریزی، شوہروں کے قتل اور لاپتہ کردینے کے باعث بیوائوں جیسی زندگی گزارنے والی عورتوں کا المیہ، اجتماعی طور پر بینائی ضائع کر دینا اور جسمانی تشدد شامل ہے، جس کا تمام ریکارڈ دستاویزی صورت میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے پاس موجود ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں انسانی المیہ سے وقت گزر جانے سے پہلے آگاہ ہونا چاہئے۔ ہیومن رائٹس جے کے سی ایچ آر کے صدر ڈاکٹر نذیر گیلانی نے اس لیگل فریم ورک کے بارے میں اظہار خیال کیا، جس کے تحت اقوام متحدہ کی جانب سے اب تک تنازع کشمیر پر بحث نہیں ہو سکی جبکہ اسے مختلف ممالک بشمول برطانیہ، امریکہ اور دیگر کے ہمراہ یہ مسئلہ حل کرانا تھا ۔ ڈاکٹر گیلانی نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے پس منظر پر روشنی ڈالی اور تنازع پر قانونی بحث کی تاریخ بیان کی۔ عالمی شہرت یافتہ برطانوی بیرسٹر اورانسانی حقوق پراقوام متحدہ کے رپورتاژ مسٹر بین ایمرسن کیوسی نے متعدد دستاویزی شہادتوں کی روشنی میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب کہیں انسانی حقوق کی صورت حال بد ترین ہو جاتی ہے تب دنیا اس جانب متوجہ ہوتی ہے۔ انہوں نے ان بھارتی دعوئوں کو مسترد کر دیا کہ اس کے زیر قبضہ کشمیر میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد تھے اور کہا کہ اجتماعی قبروں پر انٹرنیشنل پیپلز ٹریبونل رپورٹ میں ہلاک شدگان کے ڈی این اے سے یہ ثابت کیا گیا کہ وہ مقامی کشمیری تھے۔ ایم ای پی محترمہ انتھیا میکلن ٹائر نے زور دیا کہ انڈین فوجوں کو انسانیت کے خلاف جرائم پر معافی نہ دی جائے۔ معروف کشمیری رہنما پروفیسر نذیر شال نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے محاصرہ کو بوسنیا، سربیا میں محاصرہ سے مماثل قراردیا، جہاں بھارت کشمیریوں کو ہلاک کر رہا ہے۔ انہوں نے انٹرنیشنل کمیونٹی کو کشمیریوں کی ناگزیر نسل کشی سے متنبہ کیا۔ ایک نوجوان کشمیری خاتون محترمہ عظمیٰ رسول نے کشمیری خواتین کی حالت زار بیان کی۔ انہوں نے پشپورہ، کنن میں 1991 میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں اجتماعی ریپ کی متاثرہ خواتین پر تباہ کن نفسیاتی اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سانحہ کے بعد وہاں خواتین اتنی خوفزدہ ہیں کہ وہ گروپوں کی شکل میں سوتی ہیں۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کی نمائندہ محترمہ شمیم شال نے کشمیر کی موجودہ صورت حال بیان کی۔ انہوں نے بتایا کہ بھارتی حکومت کشمیری عوام کے حوصلے توڑنے کیلئے خوف، تضحیک اور تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اختتام پر ہائی کمشنر نفیس زکریا نے امید ظاہر کی کہ سیمینار کا انعقاد کشمیر کے بارے میں آگہی کو فروغ دے گا۔ انہوں نے شرکا سے اپیل کی کہ وہ بے بس کشمیریوں کی زبان بن جائیں اور انہیں اخلاقی طور پر سپورٹ کریں۔
تازہ ترین