لاہور (شوبز رپورٹر) رکن قومی اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد عمرنے کہا ہے کہ عوام کے مفاد کی بات کرنا سیاستدان کامطمع نظر ہی نہیں اسی لئے ہمیں تعلیم ، صحت و دیگر شعبوں میں تیز رفتار بہتری نظر نہیں آرہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے فیض فیسٹول کے دوسرے روز پاکستان کا مستقبل کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں کیا ۔انھوں نے کہاجمہوریت کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا پارلیمان بالادست ہونی چاہیے معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہاں صرف یہی بات ہوتی رہتی ہے کہ ادارےطاقتور ہیں یا سول حکومت ۔آج کی کلیدی سیاسی جماعتوں کے منشور میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے سیاسی جماعتوں کا نظریہ تو ستر کی دہائی میں ہی ختم ہوگیا تھا۔سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کے مابین فرق ختم ہو گیا ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا جب ہم نے ایوان صدر سےپارلیمان پر شبخون مارنے کا دروازہ بندکیا تو عدلیہ کے ذریعے دو جمہوری وزیر اعظم گھر بھجوا دئیے گئے۔مزاحمت کی سیاست ختم ہوتی جارہی ہے جبکہ میڈیا کی کمرشلائزیشن سے مزاحمتی صحافت کمزور ہوگئی ہے۔آزادی اظہار رائے مفقود ہوچکا ہے غیر مرئی طریقہ سےاس حق کو غصب کرلیا گیا ہے۔پاکستان کے مستقبل اس صورت میںتابناک ہوسکتا ہے جب فیض آباد دھرنے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق حدود سے تجاوز کرنے والے افسران کے خلاف قرارواقعی کارروائی کی جائےگی۔یہ بھی تحقیقات کی جائیں کہ کس کے حکم پر کس نے بعض اہم علاقوں میں اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو بند کیا۔پارلیمان کی طاقت کو کمزور کردیا گیا ہے۔منگ پرسنز کو قید کرنے کی جگہوں پر پارلیمان کے نمائندگان کو جانے نہ دیا گیا۔اس سلسلے میں جب ہم کمرشل ایکٹویٹی پر آواز اٹھاتے ہیں اسے دبا دیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما عندلیب عباس نے کہااداروں میں اصلاحات نہ ہونے کہ وجہ سے وہ دیوالیہ ہونے کو ہیں ۔خواندگی کی شرح 60 فیصد سے58 فیصد ہونے کی وجہ سے قوم مزید جاہل ہوگئی ہے۔ سابق سنیٹر روشن خورشید نے کہاآج کا بلوچستان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ہماری بیٹیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں اور پاکستان کا مستقبل تابناک ہے ۔سیاسی پابندیوں کے دور میں آزاد صحافت کے موضوع پرمنعقدہ سیشن میںحامد میر نے کہاسچ انتہائی طاقتور ہوتا ہےجب بولا جاتا ہے عوام میں مقبول ہوتا ہےفیض کی مانند سچ بول کر جو بھی جیل جائے یا پھانسی چڑھ جائے امر ہوجاتا ہے۔صحافت اگر اشاروں پر چلنا شروع کردے تو پیغام صحیح طریقے سے نہیں پہنچتا ۔صحافت کو انگلیوں پر نچانے والوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔نسیم زہرہ نے کہا اگر غیر متعلقہ لوگ سیاست میں آئیں گے تو ہم ان کے کردار پر بات کریں گے۔عمران خان کے کہنے پر ہی مولان افضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس دکھائی گئی۔پی ٹی ایم برا کام کرے یا اچھا اس کو زیر بحث آنا چاہیے۔سوچ پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی ہے۔اداروں کا نام لیں تو جھگڑا ہوجاتا ہے۔میرا چینل پہلے دو ہفتوں اور پھر ایک ہفتہ کیلئے بندکردیا گیا پیمرا سے پوچھا تو بتایا گیا کہ ایک اینکر پرسن کو چینل سے نکال دیں۔منیجمنٹ کو آخر کار پروگرام بند کرنا پڑا ۔وجاہت مسعود نے کہا کہ شک ہے کہ صحافت کے ساتھ ساتھ ملک بھی آزاد نہیں ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ پورے ملک کی ویڈیو فائل مرتب کی جاچکی ہے فائل بنانے والےاب کسی سے نہیں خوفزدہ نہیں۔فاطمہ جناح ، نثار عثمانی، مظہر علی خان، چراغ حسن ،حامد میر کے کیس ہمارے سامنے ہیں۔احترام تمام اداروں کا ہونا چاہیے۔۔غیر پیشہ ور عطائیوں نے صحافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے موجودہ صحافت راگ درباری بن چکی ہے۔وسعت اللہ خان نے کہا صحافت کو پابند بنانے والوں کےلطائف کی تعداد بڑھ گئی ہے جنھوں نے سب کچھ کرنا ہے تہمت لگانی ہے انھیںہماری صفائی کی بھی ضرورت نہ رہی ہے۔مجھے تو آج جنرل ضیا الحق اچھا لگنے لگاہے وہ بھولے، شریف اور واضح ذہن رکھنے والےلوگ تھے کھلم کھلا گرفتار کرتے ، کوڑے لگاتے اور پھانسی بھی دے دیتے تھے۔آج کی سنسرشپ تجریدی آرٹ بن گئی ہےبقول شاعر تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔ہمارا تو موقف ہے کہ جو کہیں اس کابرملا اظہار کریں ۔جن بندوں کو اٹھائیں اس کااعتراف کریںظلم کرتے ہوئے بلوغت کا مظاہرہ کریںکوئی شکایت نہ ہوگی۔غیر تربیت یافتہ صحافی اور غیر پیشہ ور مالکان اظہار رائے کا غلط استعمال کررہے ہیںاس وجہ سے ہمیں اپنی برادری سے بھی ڈر لگنے لگا ہے اور صحافت کا معیار گر گیا ہے میرا تو خیال ہے کہ ریٹنگ کے بغیر بھی موثر ابلاغ ہوسکتا ہے۔ اصغر ندیم سید نے کہا ہر جگہ صرف شادی ، طلاق اور ناجائز تعلقات کی عکاسی ہورہی ہے کیا ہمارےمعاشرے کے یہی حقیقی مسائل ہیں ؟مفید اور مثبت خبریں لوگوں کی توجہ ہی نہیں حاصل کرپاتیں ہیںاس مائنڈ سیٹ کو بدلنا چاہیے۔اداکاراحسن خان نے کہاناظرین کو بے وقوف سمجھنے اور بنانے کی غلط سوچ سے چھٹکارا پانا ہوگا ورنہ ایسا وقت آنے کو ہے جب ریٹنگاور اشتہار دونوں ہی محروم ہوجائیں گے۔روشانے ظفر نے کہاسوشل میڈیا کوسماجی طرقی کیلئے استعمال کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔اداکار ہ سیمی راحیل نے کہالوگوں کی کردار کشی کرنا ہمارا قومی شغل بن چکا ہےاسے سے نجات حاصل کرنا ہوگی مریخ سے آکر لوگ اس طرز عمل کو ٹھیک نہیں کریں گے۔ ماہر نفسیات شمیم احمد نے کہا بھٹو کے بہت سے فیصلے ادراک کے برخلاف تھے بلوچستان میں آرمی ایکشن ، صنعتوں کو قومیائے جانے اورضیا الحق کو آرمی چیف بنا کر انھوں نے نہ صرف کم عقلی بلکہ کم فہمی کا ثبوت کیا۔ جس کےآئیڈیلز چنگیز خان اور نپولین ہوں اسے کیونکر ذہین اور فطین کہا جاسکتا ہے وہ تو اپنے اقدامات اور رویوں میں ایک آمر جیسے ہی تھے۔ دوسرے روز بیس کے قریب سیشن ہوئے۔لاہور گرامر سکول کے بچوں نےڈانس پیش کیا ۔بین الاقوامی شاعری پر فیض کا اثر کے موضوع پر امجد اسلام امجد اور ڈاکٹر طارق عابدی کے مابین مکالمہ ہوا۔کافی اور فیض کے موضوع پر ڈاکٹر عارفہ زہرہ نے اظہار خیال کیا۔لاہور ادب کا شہرکے موضوع پرامجد اسلام امجد،آصف بلال لودھی،آمنہ علی نے اظہار خیال کیا میزبانی کے فرائض شیبا عالم نے ادا کئے۔پٹیالہ گھرانہ پر شفقت امانت علی خان ، ارشد محمود نےشاہ زیدی کے سوالوں کا جواب دیئے۔کراچی یونیورسٹی کی جانب سے کلام فیض پیش کیا گیا۔ شاعری اور پیانو کے موضوع پرعدیل ہاشمی اور اسد انیس نے اظہار خیال کیا۔کلاسیکل آرکسٹرا طرز گروپ اور فرح یاسمین شیخ نے کتھک ڈانس پرفارمنس پیش کی۔آج فیسٹول کا تیسرا اور آخری روز ہے۔