• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم آرمی چیف ملاقات، ایک طرف مسکراتا چہرہ، دوسری طرف سنجیدگی، وزیراعظم کے معمولات میں چھٹی کا کوئی تصور نہیں، تجزیہ کاروں کے تبصرے

اسلام آباد (فاروق اقدس/ نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ایک طویل عرصے بعد گزشتہ روز ہونے والی ملاقات کے حوالے سے اعلیٰ تجزیوں، تبصروں اور تاخیر سے ہونے والی ملاقات کے عوامل اور محرکات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا، دونوں شخصیات کی ملاقات کے درمیان باڈی لینگویج کا مشاہدے کرنے والے اس ملاقات کو اتنی باریک بینی سے دیکھ رہے تھے کہ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ملاقات میں سرکاری ٹی وی کی کوریج میں ایک شخصیت کا مسکراتا ہوا چہرہ غیرضروری طور پر بار بار دکھا گیا۔

(واضح رہے کہ آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان یہ ملاقات کم و بیش دو ماہ بعد ہوئی تھی اس سے قبل دونوں شخصیات کے درمیان ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب کیلئے امریکہ اور سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہونے والے تھے) تو دوسری شخصیت کی گہری سنجیدگی کے بھی مفاہیم نکالے جا رہے تھے ہو سکتا ہے کہ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا لیکن اگلے روز ہی یہ خبر آگئی کہ وزیراعظم نے ہفتہ ،اتوار دو روز باضابطہ طور پر سرکاری مصروفیات ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

تفصیلات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ یہ 48 گھنٹے ذاتی رہائشگاہ بنی گالہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزاریں گے اس دوران نہ تو کوئی سیاسی، تنظیمی اور حکومتی ملاقات ہو گی اور نہ ہی وہ کسی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ 

جس طرح وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات اس لئے بھی زیر بحث آئی کیونکہ یہ ملاقات نہ صرف گزشتہ عرصے کے مقابلے میں خاصے وقفے کے بعد ہوئی تھی اور ایسے حالات میں جب ملک بالخصوص داخلی سطح پر بے بقینی، انتشار اور افراتفری کا شکار تھا وفاقی دارالحکومت میں موجود احتجاج کرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد ا س سے پہلے نہیں دیکھی گئی تھی جو پوری استقامت سے14دن تک وزیراعظم کا استعفیٰ لینے کے مطالبے پر اپنے قائد کی اطاعت میں ڈٹی رہی۔

اس کے علاوہ بھی بعض ایسے امور تھے جو صرف سیاسی حلقوں میں ہی اضطراب کا باعث نہیں تھے بلکہ معاشرے کے مختلف طبقات ان سے براہ راست متاثر ہو رہے تھے اس لئے ملک کی دونوں اہم شخصیات کی ملاقات توجہ کا مرکز بنی۔ اس طرح وزیراعظم عمران خان کی دو چھٹیاں بھی موضوع بحث بننے کی کم و بیش ایسی ہی وجوہات تھیں اول بات تو یہ کہ وزیراعظم کے بارے میں ا س بات پر اتفاق رائے ہے کہ وہ ایک انتھک شخصیت ہیں اور بیداری کے عالم میں ان کا زیادہ وقت حکومتی امور نمٹانے میں ہی صرف ہوتا ہے ۔

وہ ملک میں ہوں یا ملک سے باہر ان کی اول ترجیح حکومتی ذمہ داریوں کی انجام دہی ہوتی ہے ایسا بھی ہوا کہ وہ بیرون ملک کی اہم مصروفیات کے بعد طویل مسافت کے دوران جہاز میں بھی فرائض انجام دیتے رہے اور وطن واپس پہنچتے ہی مختلف اجلاسوں کی صدارت اور میٹنگز میں مصروف ہو گئے۔

 پھر ایک سال سے زیادہ عرصہ ہونے کو آیا ہے ان کے معمولات میں چھٹی کا کوئی تصور نہیں اس لئے بھی ان کی دو چھٹیوں پر مختلف پیرائے کے تبصرے ہو رہے ہیں جن میں سوشل میڈیا بھی پیش پیش ہے جہاں وزیراعظم کے اس فیصلے کو ان کی صحت کے لئے ضروری قرار دیا جا رہا ہے اور یہ مشورہ بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ ہفتے میں کم از کم ایک دن کی چھٹی کو معمول بنا لیں اور ازدواجی زندگی کو بھی وقت دیں اور کچھ وقت غیر سیاسی دوستوں کے ساتھ بھی گزاریں تو دوسری طرف ان کے سیاسی مخالفین ان کی چھٹیوں کو سیاسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور طنزیہ انداز میں تبصرے کر رہے ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ مسٹر پرائم منسٹر ان دو دنوں میں آئندہ کی لمبی چھٹیوں کی پلاننگ کر لیں کہاں۔ کب اور کیسے گزارنی ہیں۔ 

بعض حلقے وزیراعظم کی دو چھٹیوں کو حال ہی میں بلاول بھٹو کی جانب سے دیئے گئے اس بیان کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں جو انہوں نے گزشتہ روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران دیا تھا جس میں انہوں نے انتہائی پراعتماد انداز سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگلے سال تک نئے انتخابات اور نیا وزیراعظم ہو گا۔ 

مسلم لیگ (ن) کے حلقے خواجہ محمد آصف کے اس بیان کا بار بار تذکرہ کر رہے ہیں جو انہوں نے جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں آن دی فلور دیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ چند ہفتوں، مہینوں میں بہت سے چیزیں بے نقاب ہونے والے ہیں ان کا دعویٰ تھا کہ حکومت کے علم میں نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ ہم جانتے ہیں۔ 

ہمیں پتہ ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس تناظر میں مولانا فضل الرحمٰن کی دھرنے میں تقاریر اور ان کی جانب سے رواں سال کے آخر یا پھر نئے سال کے آغاز پر حکومت کی تبدیلی کی باتیں دہرائی جا رہی ہیں یادر ہے کہ آصف علی زرداری پہلے ہی فروری یا مارچ میں نئے انتخابات کے بارے میں پیش گوئی کر چکے ہیں۔ 

بعض حلقوں نے ہفتے کو لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ’’انڈیمنٹی بانڈ‘‘ کی حکومتی شرط کے خاتمے اور میاں نواز شریف کا نام E-C-Lسے نکالنے کے فیصلے کے تناظر میں یہ خیال ظاہر کیا کہ وزیراعظم کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ عدالتی فیصلہ نواز شریف کے حق میں جا سکتا ہے اس لئے انہوں نے اعصاب کو پرسکون رکھنے کے لئے دو دن کی چھٹی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تازہ ترین