پتھر ، مٹی ، اینٹوں اور چونے سے بنی عمارتیں بظاہر ساکت اور بے جان نظرآتی ہیں لیکن فن تعمیر کے یہ خوب صورت نمونے عہد رفتہ کی تاریخ اپنے اند سموئے ہوتے ہیں۔ِ بیان کرتے ہیں۔ ایک زمانے کو دوسرے زمانے سے جوڑتے اور قدیم زمانے کا جدید دور سے رشتہ قائم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
حیدرآباد کا ڈھائی سو سالہ قدیم پکا قلعہ ہو یااس کے قرب وجوار میںواقع درگاہ سخی عبدالوہاب شاہ جیلانی ، قدم گاہ مولا علی، نوگزی قبر، و و قبریں، مکھی ہائوس، ہوم اسٹیڈ ہال، جھمٹ مل کیمت مل بلڈنگ، گنگا رام تلوک چند بلڈنگ، چمن داس بلڈنگ، ہنومل اینڈ سنز بلڈنگ پکا قلعہ ، کلہوڑو، تالپور اور نوآبادیاتی دور میں تعمیر ہونے والی تاریخی عمارات اور مقامات ہوں، قدیم دور کے تعمیراتی فن کے عظیم شاہ کار ہیں۔ ان عمارات کے باعث ہماری تاریخ کے چار مختلف ادوارپکا قلعہ کے قریب ایک ہی مقام پر یکجا نظر آتے ہیں۔
ہوم اسٹیڈ ہال نوآبادیاتی دور کی ایک خوبصورت عمارت اور فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1869ء میں حیدرآباد میں ہیضہ کی وبا پھوٹنےپر شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس سے متاثر ہوئی۔ اس ہنگامی صورتحال میں کچھ ایسےدرد مند دل رکھنے والے لوگ بھی تھے جو انسانی جانوں کو بچانے اور متاثرہ مریضوں کی مدد کے لیے دن رات کوشاں رہے۔ انہی میں، ڈاکٹر ہوم اسٹیڈ بھی تھے جولوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیےہر ممکن خدمات انجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر ہوم اسٹیڈ کا تعلق برطانیہ سے تھا، وہ پیشے کے اعتبار سےطبی ماہرتھے، جب حیدرآباد میں ہیضے کی وبا پھیلی تووہ اس زمانے میں غیرمنقسم ہند میں خدمات انجام دے رہے تھے وہ اس وباء کی اطلاع ملتے ہی فوری طور سے حیدرآباد پہنچے ۔انہوں نےحیدرآباد کے باسیوں کو اس موذی مرض کے ہاتھوں موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیے رات دن ایک کرکے انہیں اس مرض سے نجات دلائی۔
ڈاکٹر سادھو ہیرانند جو ہومیو پیتھک معالج تھے انہوں نے اس کام میں ہوم اسٹیڈ کی بھر پور معاونت کی اور ان کے ساتھ ہیپے کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ڈاکٹر ہوم اسٹیڈ کے وفات پانے کے بعدحیدرآباد میونسپلٹی نے ان کی یاد میں 1905ء میں پکا قلعہ کے قریب ایک شاندار ہال تعمیرکراکے ان کے نام سے موسوم کردیا ۔ ہال کے اطراف میں خوبصورت باغ بھی لگایا۔
1955میں جب پیر علی محمد راشدی کے پاس وزارت اطلاعات و نشریات کا قلم دان تھا، حیدرآباد میں ریڈیو پاکستان کاقیام عمل میں آیا۔ اس سلسلے میں ریڈیو پاکستان کا حیدرآباد اسٹیشن ہوم اسٹیڈ ہال میں بنایا گیا، پیر علی محمد راشدی نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد اسٹیشن کا افتتاح کیا جس کے بعد ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی نشریات کا آغاز ہو ا۔ یہ عمارت 1962 تک ریڈیو پاکستان حیدرآباداسٹیشن کے طور پر استعمال میں رہی مگر جیسے ہی ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی نئی عمارت ،پریس کلب کے قریب تعمیر ہوئی تو اس ہال کو خالی کر دیا گیا۔
یہ ہال آج کل حسرت موہانی لائبریری کے نام سے معروف ہے۔ گاڑی کھاتہ پکا قلعہ جائیں تو ہوم اسٹیڈ ہال چاڑی کے تقریباً درمیانی حصے میں سڑ ک کے بائیں جانب مکھی ہائوس کی بلند و بالا عمارت موجودہے اور دائیں جانب ہوم اسٹیڈ ہال (حسرت موہانی لائبریری) واقع ہے۔ ہال کے احاطے کا رقبہ کئی ایکڑ پر مشتمل ہے اور پتھر کی دیواروں اور آہنی گرل سے بنی بائونڈری کے درمیان واقع ہے۔ ہال کی عمارت کے اطراف بنا باغ اب چارحصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ پر خوبصورت لان اب بھی موجود ہے۔
مشرقی حصہ میں ’’مسجد اسحاق‘‘ اور اس سے متصل ’’باڈی بلڈنگ کلب‘‘ ہے ۔ جنوبی حصے میں سرکاری ملازمین کی ایک چھوٹی سی کالونی واقع ہے ۔ باقی حصہ میں لائبریری ہال واقع ہے۔ لائبریری ہال کا دروازہ، مغربی رخ پر ایک بڑے لان کے سامنے کھلتا ہے۔
ہال کامرکزی دروازہ مکھی ہائوس کے سامنے واقع ہے جبکہ مؤرخین کے مطابق ہوم اسٹیڈ ہال کی تعمیر سے قبل اس جگہ سندھ کے تالپور حکمران میر نصیر خان تالپور کا ’’پڑ‘‘ تھا۔ اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں لگا ہوا ’’علم‘‘ دور دراز کے علاقوں سے دکھائی دیتا تھا اور اس کی تصویر آج بھی برٹش میوزیم لندن میں لگی ہوئی ہے۔
ہال کی تعمیر کے کچھ عرصے بعد ہی یہاں ایک فری ریڈنگ روم (بھائی واسیومل اینڈڈ ہیرانند فری ریڈنگ روم ) بنایا گیا۔ حیدرآباد کا یہ ہال اس وقت شہرکی سماجی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ 1916ء میں حیدرآباد کی کانگریس نے ایک پروگرام منعقد کرکے کانگریسی رہنما مہاتما گاندھی کو یہاں مدعو کیا تھا اور انہوں نے اس جگہ اپنی پارٹی کے کارکنوں سے خطاب بھی کیا تھا۔ 1942ء میں یہاں کل ہند میوزک کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں پورے ہندوستان سے معروف موسیقاروں نے شرکت کی تھی۔
ریڈیو پاکستان کے یہاں سے منتقل ہونے کے بعد چند سرکاری دفاتر یہاں قائم کردیئے گئے لیکن ہال کے ایک حصے میں بلدیہ لائبریری موجود رہی اور تاحال یہ لائبریری حسرت موہانی لائبریری کے نام سے موجود ہے جو اب محکمہ ثقافت سندھ کے زیر انتظام ہے۔
یہ حیدرآباد شہر کی ایک بڑی لائبریری ہے اور اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ حیدرآباد کے گنجان آباد اور مرکزی علاقے میں واقع ہے۔ علم کے متلاشی نوجوان روزانہ یہاں آتے ہیں ۔ اہل علم یہاں اپنے علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں لیکن ابھی یہاں مزید اقدامات کی ضرورت ہے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لائبریری کی طرف متوجہ کرسکیں اور دائو پوٹہ لائبریری حیدرآباد کی طرح یہاں بھی طلبہ اور نوجوانوں کا ہجوم ہو اور وہ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کرسکیں۔ شہر میں مزید لائبریریاں قائم ہوں۔ اور دیپ سےدیپ روشن ہو اور علم کی روشنی پورے جہاں میں پھیل جائے۔ اور ہر ذہن ، علم، محبت اور بھائی چارہ کی اعلیٰ اقدار سے روشن ہوجائے۔