خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی قیادت میں گزشتہ برسوں کے دوران انجام پانے والے کارناموں پر نظر ڈالیں تو ہر سطح و ہر شعبے میں تبدیلی آئی ہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان او ر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے عہد میں مملکت نے مستقبل کی جہت میں پراعتماد پیشرفت کی ہے۔ مملکت نے مطلوبہ مقاصد کے نقوش متعین کرکے سعودی وژن 2030ءپیش کیا۔ شدید مشکلات اور مصائب سے کراہتی ہوئی دنیا میں ہمہ جہتی ترقی اور اس کو عملی جامہ پہنانا کوئی آسان کام نہیں۔
سعودی قیادت نے سماجی، ثقافتی، سفارتی اور اقتصادی تصور کو جدید انداز میں پیش کیا۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے عہد میں سعودی عرب نے پوری دنیا کو یہ بتا دیا کہ مملکت کا امن، اس کی سلامتی،خوشحالی اور عوام کی بہتری ہی ان کااوڑھنا بچھونااور مصروفیات کا محور ہے۔ ان کی نظر میں عوام ملکی تعمیر و ترقی کی اساس ہیں۔ہمیں نظر آنے والے کارنامے یہ واضح عندیہ دے رہے ہیں کہ سعودی عرب مستقبل کی جانب رواں دواں ہے ۔ مملکتِ سعودی عرب کی تیزی سے تبدیل ہوتی اندرونی صورت حال اہلِ فکر و نظر کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
ملکی معیشت سے لے کر دفاع تک تما م شعبوں میں بہتری لانے کے لیے دستیا ب تما م وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔عالمی دنیا کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے، ان تمام تبدیلیوں کے پیچھے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی تعمیری اور انقلابی سوچ کار فرما ہے۔اس وقت سعودی عرب کی آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔اس میں 70فی صد آبادی تیس سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ان سعودی نوجوانوں کی محبت نے شہزادہ محمد بن سلمان کومضبوط اور طاقتور شخصیت بنا دیا ہے اور اس وقت وہ اپنے تعمیری اقدامات کی بدولت سعودی عرب میں ایک مصلح لیڈر کے طور پر پہچانے جارہے ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان تعلیم سے فراغت کے بعد وہ '’’سرکاری مشاورتی کمیٹی‘‘سے وابستہ ہوگئے۔جہاں انھوں نے بہت سے اصول و قوانین میں تبدیلی لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ان ہی صلاحیتوں کی بنا پر کم عمری ہی میں انھیں وزیر دفاع کا منصب سونپا گیا۔ پھر جلد ہی اپریل 2016ء میں نائب ولی عہد بھی نامزد ہوئےاور عالمی مبصرین انھیں ایک متحرک ،دورجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور عوام دوست لیڈر کی حیثیت سے جاننے لگے۔
وزیر دفاع کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد یمن میں منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرنے اور سعودی عرب کی سرحدوں پر درانداز ی کرنے والے سر زمین حرمین کے دشمنوں کے خلاف زبردست فوجی مہم برپا کی اور شر پسند عناصر کی کمیں گاہوں کو ختم کر کے ان کے ناپاک عزائم کو بھی خاک میں ملا دیا۔شہزادہ محمد بن سلمان نے 2015 ء میں '’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘قائم کرنے کا اعلان کیااور اس اتحاد کی قیادت پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کے سپرد کی ۔اسلامی عسکری اتحاد کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں چالیس مالک کی فوج شامل ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے انقلابی’’ویژن 2030ء‘‘کے نام سے وسیع تر اصلاحات کے پروگرام کا اعلان کیا۔اس کو دوسرے لفظوں میں ’’معاشی اصلاحات '‘‘کا ویژن بھی کہہ سکتے ہیں، جس کا ایک اہم مقصد سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تیل کی آمدن سے کم کر کے عالمی سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کرنا اور آمدنی کے دوسرے ذرائع پیدا کرنا ہے۔ سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو کے پانچ فیصد حصص کی فروخت اور 500ارب ڈالرز کی لاگت سے ’’ نیوم ‘‘ کے نام سے جد ید ٹیکنالوجی سے آراستہ شہر بسانے کا منصوبہ بھی اس ویژن کا حصہ ہے۔
اس ویژن کا ایک اہم اور قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ کسی طرح مملکت میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں ۔ویژن کے تحت 2030 ء تک تمام سرکاری اداروں میں ’’ای گورننس '‘‘ (برقی نظم ونسق) کے نظام کا نفاذ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان عالمی حالات کو بھی بخوبی سمجھتے اور اس کا بہ خوبی ادراک رکھتے ہیں۔ امریکا میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ منتخب ہوئے ۔
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے خیالات میں انتہا درجے کی شدت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔شہزادہ محمد بن سلمان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد منظم انداز میں سفارت کاری کا آغاز کیا ۔اس وقت بھی ان کی کوشش ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اسلام اور مغربی دنیا کے درمیان جو خلیج ہے، اسے ختم کیا جائے اورانھیں اعتدال پسندانہ انداز میں ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی جائے۔
مارچ کے اوائل میں سعودی کابینہ نے مملکت میں کھیلوں کے مقابلوں اور کنسرٹس کو دیکھنے کے لیے آنے والے غیرملکیوں کو برقی سیاحتی ویزوں کے اجراء کی منظوری دی ۔حکام کے مطابق اس فیصلے کے تحت ویزا کے لیے درخواست کو چند منٹ میں آن لائن مکمل کیا جاسکتا ہے اور اس مقصد کے لیے کسی سفارت خانے یا قونصل خانے میں بھی جانے کی ضرورت نہیں،لہذا سیاحتی ویزوں کا اجراء کیا گیا۔
اس کا مقصد سیاحتی شعبے کی ترقی اور یونیسکو کے قراردیے گئے تاریخی آثار کی سیر وسیاحت کے لیے غیرملکی سیاحوں کو ترغیب دینا اور انھیں سہولتیں مہیا کرنا ہے۔ سعودی حکومت نے مختلف سیاحتی منصوبے بھی شروع کررکھے ہیں۔ ان میں تفریح ، کھیلوں اور فنون کی سہولتیں مہیا کرنے کے القدیہ میں ایک بڑا منصوبہ جاری ہے۔ یہ دارالحکومت ریاض سے کوئی ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔حکام کو توقع ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد یہاں سالانہ قریباً 15 لاکھ زائرین آئیں گے ۔اس کا پہلا مرحلہ 2022ء میں مکمل ہوگا۔دوسری جانب سعودی حکومت نے صنعتی اداروں میں غیر ملکی کارکنان پر مقرر فیس پانچ سال تک سرکاری خزانے سے ادا کرنے کا اعلان کردیاہے، جسے صنعتی اداروں کے غیرملکی ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
سعودی عرب کی ترقی میں حالیہ برسوں کے دوران خواتین نے مختلف شعبوں میں منفرد کارنامے انجام دیے ہیں۔ ان میں اہم ترین کام خواتین کو ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردارادا کرنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ خواتین کو سعودی وژن 2030 کی بدولت ریکارڈ وقت میں آگے بڑھنے کے شاندار مواقع حاصل ہوئے۔ شہزادی ریما بنت بندر کو 23 فروری 2019ء کو امریکا میں سعود ی سفیر بنایا گیا۔ انہوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی خاتون سفیر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
فاطمہ باعشن واشنگٹن میں سعودی سفارتخانے کی ترجمان مقرر کی گئیں۔ اس عہدے پر فائز ہونے والی یہ پہلی سعودی خاتون ہیں۔عبیر بنت یوسف دانش اقوام متحدہ میں سعودی مشن کی قانونی کمیٹی کی چیئرپرسن متعین کی گئیں۔رندۃ الھذلی یمن کی تعمیر و ترقی کے پروگرام پر عمل درآمد کے لیے یمن بھیجی جانے والی پہلی سعودی خاتون ہیں۔ انہیں یمنی خواتین کی مدد کے لیے مقررہ سعودی پروگرام میں بین الاقوامی تعلقات عامہ کا انچارج بنایا گیا۔ افنان الشعیبی عرب برٹش چیمبر آف کامرس کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور سیکریٹری جنرل ہیں، ھیفاء الجدیع محکمہ سیاحت و قومی ورثے میں ادارہ بین الاقوامی تعاون کی انچارج ہیں۔
ھیفاء انسداد دہشت گردی کے لیے قائم اقوام متحدہ کے مرکز سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔ ھیفا ء اقوام متحدہ میں سعودی سفارتی مشن کے سائبان تلے سیاسی اور امن و امان کے مسائل دیکھتی ہیں، اسی طرح مختلف اداروں، اسپتالوں،صحافتی و تعلیمی اداروں، بینکوں، سپر مارکیٹوں میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ مختلف شعبوں اپنے کردار ادا کررہی ہیں۔