• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قبر کے کتبے پر آیاتِ قرآنی لکھوانا کیسا عمل ہے؟

تفہیم المسائل

سوال: قبر کے کتبے پر قرآنی آیات وغیرہ لکھوانا کیسا عمل ہے ؟(معاذ احمد، راول پنڈی)

جواب:صرف ضرورت کے لئے یعنی قبر کے آثارمحفوظ رہیں یاشناخت وعلامت کے طور پر مُتوفّٰی کا نام کندہ کرانے میں حرج نہیں ہے، تاکہ قبر کے آثار باقی رہیں اور اس کی اہانت نہ ہو ،اِس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات یا اشعارلکھوانا یا مبالغہ آرائی پر مبنی تحریر مکروہ ہے ۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ یہاں تک کہ قبر پر قرآن مجید (کی آیات) لکھنا یا اَشعار یا (صاحبِ قبر کی )تعریف میں مبالغہ آرائی کے کلمات لکھنا مکروہ ہے ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد3،ص:135)‘‘۔ڈاکٹر وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں :ترجمہ:’’ قبر پر لکھنا جمہور علماء کے نزدیک مکروہ ہے ،خواہ صاحبِ قبر کا نام ہو یا کسی اورکا ، خواہ سرہانے کی طرف لکھے یا کسی اور جگہ یا اُس کے نام کوئی پرچہ یا تحریر لکھ کر سوراخ میں رکھ دی جائے ،اصحابِ مالکیہ کے نزدیک قبر پر قرآن مجید (کی آیات) لکھنا حرام ہے اور اُس کی دلیل یہ (حدیث) ہے : جسے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پختہ کرنے ،اُن پر لکھنے اور اُن پر عمارت بنانے سے منع فرمایا، (صحیح مسلم :970)۔احناف کہتے ہیں: اگر ضرورت ہو توقبر پر لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،تاکہ قبر کا نشان محفوظ رہے اور اُس کی اِہانت بھی نہ ہو ‘‘۔ مزید لکھتے ہیں :ترجمہ:’’ خلاصہ یہ ہے کہ( قبر پر )لکھنے کی ممانعت کو بلاضرورت لکھنے پر محمول کیاجائے یعنی جبکہ لکھنا ضرورت کے بغیر ہے ، قرآن مجید (کی آیات) یا اَشعار لکھنا یاصاحبِ قبر کی تعریف میں مبالغہ آرائی کے کلمات لکھنا مکروہ ہے ، (فقہ الاسلامی وأدلتہٗ ، جلد2، ص:1553)‘‘۔

تازہ ترین