خدا بھلا کرے ٹی وی والوں کا جنھوں نے اردو زبان کا حلیہ بگاڑنے میں بڑی محنت کی ہے۔ ٹی وی پر اَملاک، اَضلاع اور اَقساط جیسے الفاظ کاتلفظ اکثر غلط کیا جاتا ہے اور انھیں الف پر زبر کی بجاے الف پر زیر کے ساتھ یعنی غلط طور پر اِملاک، اِضلاع اور اِ قساط وغیرہ بولا جاتا ہے ، حالانکہ اس طرح ان الفاظ کا مفہوم بھی بدل جاتا ہے۔
عربی الفاظ کی جمع بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے سہ حرفی مادّے کو توڑ کر کسی خاص وزن پر جمع بنائی جاتی ہے ۔ اسے جمع مُکسَّر(مکسر یعنی ٹوٹا ہوا ) کہتے ہیں کیونکہ اس میں لفظ اپنی اصل شکل میں برقرار نہیں رہتا بلکہ وزن کے لحاظ سے اس میں تبدیلی کی جاتی ہے ۔جمع مکسر کے لیے عربی الفاظ کے کئی اوزان اردو میں رائج ہیں ۔ ان میں سے ایک وزن ’’اَفعال ‘‘(الف پر زبر)ہے ۔ مثال کے طور پرلفظ خبر کی جمع ’’اَفعال‘‘ کے وزن پر اَخبار (الف پر زبر کے ساتھ) ہے ۔ اس وزن (اَفعال ) پر جس عربی لفظ کی بھی جمع بنے گی اس کا پہلا حرف الف (زبر کے ساتھ ہوگا )، دوسرا حرف ساکن ہوگا اور آخری حرف سے پہلے الف ہوگا ، مثلاً :
اس وزن پر کئی الفاظ ہیں جو اردو میں استعمال ہوتے ہیں اور ان سب کا پہلا حرف الف (زبر کے ساتھ) ہوتا ہے اور سہ حرفی مادّے کے آخری حرف سے پہلے الف کا اضافہ ہوتا ہے ، مثلاًجسم کی جمع اَجسام، ذہن کی جمع اَذہان،سلف کی جمع اَسلاف، خلف کی جمع اَخلاف، صنف کی جمع اَصناف ، وغیرہ۔
لیکن افسوس کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ان الفاظ کے پہلے حرف پر زبر پڑھنے کی بجاے اس کے نیچے زیر پڑھتے ہیں اور انھیں احساس تک نہیں ہے کہ اس سے مفہوم بدل جاتا ہے۔
قیوم ملک نے اپنی کتاب ’’اردو میں عربی الفاظ کا تلفظ‘‘ میں لکھا ہے کہ اَفعال(یعنی الف پر زبر) کے وزن پر بنائے گئے الفاظ کو اگر اِفعال(یعنی الف کے نیچے زیر)بولا جائے تو مفہوم قطعی مختلف ہوجاتا ہے ، مثلاً مرض کی جمع اَمراض (الف پر زبر)ہے یعنی بیماریاں، اگر اسے اِمراض(الف کے نیچے زیر) کہا جائے تو مطلب ہوگا مریض کرنایا مریض بنانا۔ اسی طرح اِ ملاک کا مفہوم ہوگا مالک بنانا،اِ خبار کا مطلب ہے خبر دینا۔
عرض یہ ہے کہ ان الفاظ کے پہلے حرف پر زبر ہے ۔ زیر سے مفہو م کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ گویا درست تلفظ الف پر زبر کے ساتھ اَملاک ، اَقساط اور اَضلاع وغیرہ ہے ۔