از محلہ کارخانہ داراں
عالمِ ارواح، ساتواں آسمان
ہونہار بیٹے شہباز
السلام علیکم:آسمان اور زمین کے درمیان آئی ہوئی اسموگ کم ہوئی ہے تو میں نے تمہیں فوراً خط بھجوانے کا فیصلہ کیا حالانکہ کئی دن سے دل چاہ رہا تھا کہ تمہیں تمہاری بہترین صلاحیتوں پر مبارکباد کا خط لکھوں۔
کل بہو کلثوم لڈو لے کر آئی تھی، تمہاری ڈپلومیسی اور خاص کر نواز شریف کو باہر نکال کر لے جانے کے حوالے سے تمہاری کوششوں کی تعریف کر رہی تھی۔ عباس شریف نے تو جونہی نواز شریف کو قطری ایمبولینس میں سوار ہوتے دیکھا اُس نے باقاعدہ نعرے لگانا شروع کر دیئے ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ شور زیادہ ہوا تو میں نے منع کر دیا کیونکہ ساتھ ہی نیازی محلہ بھی ہے، وہاں سے ہمارے شور اور نقصِ امن کی شکایت بھی کی جا سکتی تھی۔
جنرل جیلانی خاص طور پر مبارک دینے آئے، جنرل ضیاء الحق البتہ آج کل ہم سے روٹھے روٹھے سے ہیں، طعنے دیتے ہیں کہ آپ کواقتدار میں لایا میں تھا مگر تم لوگ وفا داریاں بدل کر جمہوری ہو گئے ہو۔
ہمارے محلے کے اکثر لوگ جنرل ضیاء الحق سے ناراض ہیں، کہتے ہیں کہ اُن کی پالیسی سے تشدد، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو فروغ ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل ضیاء الحق خود کو فاتح عالم، فاتح افغانستان و روس قرار دیتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جنرل حمید گل کے یہاں آنے کے بعد سے فاتح افغانستان و روس کا خطاب انہوں نے اپنے لئے چن لیا ہے اور اب جنرل ضیاء الحق خود کو صرف فاتح عالم کے خطاب تک محدود رکھنے لگے ہیں۔
بیٹے!!
میرے خط کا یہ حصہ خفیہ ہے، اسے دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے پڑھنا۔ کہنا یہ تھا کہ کہیں دھوکے میں آ کر اس اسمبلی کے ذریعے وزیراعظم بننے کی پیشکش قبول نہ کر لینا، اگر تم نے ایسا کیا تو یہ سیاسی خود کشی کے مترادف ہو گا۔
کل ایک سازشی افواہ باز تمہاری بڑی تعریفیں کر رہا تھا اور مجھے کہہ رہا تھا کہ اب ’’شہباز‘‘ وزیراعظم بنے گا۔ میرے فوراً کان کھڑے ہو گئے میں نے پوچھا سازشی یہ کیسے ہوگا؟ کہنے لگا نیچے ق اور ن لیگ کی گرینڈ مسلم لیگ بن جائے، پنجاب چوہدریوں کا اور وفاق ’’شہباز‘‘ کا۔ کہنے لگا بازی لگنے والی ہے۔
میں نے یہ بات سنی تو مجھے طیش آ گیا، میں نے اس افواہ باز سازشی کو فوراً محلہ کارخانہ داراں سے نکل کر سازشی محلے میں جانے کو کہا۔ تمہاری بھابھی کلثوم نے میرے چہرے پر غصہ اور سرخ رنگ دیکھ کر پوچھ لیا کہ شہباز فوراً وزیراعظم بن جائے تو حرج کیا ہے؟
میرا غصہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا، میں نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اس اسمبلی سے شہباز کا وزیراعظم بننا غیر اخلاقی، غیر سیاسی اور غیر جمہوری ہو گا، مینڈیٹ تحریک انصاف کو ملا ہے، ن لیگ نے اگر تحریک انصاف کا مینڈیٹ چرانے کی کوشش کی تو یہ اپنی ساکھ بھی کھو بیٹھے گی۔ کل محمد خان جونیجو نے مجھے پیغام بھیجا کہ ’’شہباز‘‘ سے کہو جلدی نہ کرے اگلے الیکشن کا انتظار کرے اور اس میں قسمت آزمائی کرے، ساتھ ہی جونیجو نے کہا کہ ’’شہباز‘‘ نے نواز کو باہر لے جا کر طاقتوروں سے اپنی دوستی کا حقِ محنت تو وصول کر لیا ہے لیکن اسے کسی کا بخشا ہوا اقتدار راس نہیں آئے گا۔
جونیجو نے یہ بھی کہا کہ شہباز نے اگر مریم کو پیچھے رکھنے کی کوشش کی تو ن لیگ مردہ ہو جائے گی اسے چاہئے کہ مریم کو آگے رکھے اور خود مہربان چچا، سرپرست اور اچھے مینجر کی طرح نیک نیتی سے سیاست کرے، اس کی قسمت میں جو ہے مل کر رہنا ہے اور جو مریم کی قسمت میں ہے اسے بھی لاکھ پابندیوں کے باوجود مل کر رہے گا۔
اگر انہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کی تو پھر سیاست شریف خاندان سے نکل کر کہیں اور چلی جائے گی۔
جانِ پدر!
میں حمزہ کے حوالے سے پریشان ہوں، وہ ہر بار تکلیفیں سہنے کے لئے اکیلا رہ جاتا ہے، اسی سال خدا نے اسے بیٹی سے نوازا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ بیوی بچوں کے ساتھ وقت گزارتا مگر ہمارے ملک کی سیاست اس قدر خراب ہے کہ یا آپ جیل میں رہتے ہیں یا اقتدار میں درمیان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
عباس کا بیٹا بھی مشکل میں گرفتار ہے، اسے ہر ہفتے فون کر کے خیریت پوچھ لیا کرو۔ عباس گلہ کر رہا تھا کہ شہباز نے ایک بار بھی میرے بیٹے کو فون کر اُس کی خیریت تک نہیں پوچھی۔
نواز کی صحت کے حوالے سے کلثوم کافی پریشان ہے، کہہ رہی تھی کہ برطانیہ میں علاج کے بجائے بائو جی کو بوسٹن امریکہ میں لے جانا چاہئے اور اس میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ ساتھ ہی تاکید کر رہی تھی کہ جب تک بائو جی مکمل ٹھیک نہ ہو جائیں سیاست کے بارے میں سوچیں بھی مت۔ اس کی خواہش ہے کہ مریم بھی بائو جی کے ساتھ ہی رہے۔
ہر روز دعا کرتی ہے کہ مریم کو باہر جانے کی اجازت مل جائے مگر مجھے افواہ باز یہ بتا گیا ہے کہ سب کچھ طے ہو گیا تھا، مریم نے بھی نواز کے ساتھ ہی باہر جانا تھا مگر ضد خان اڑ گیا اور یوں طاقتوروں کی خواہش کے باوجود مریم کو روکنا پڑ گیا۔ افواہ باز یہ بھی کہہ رہا تھا کہ مریم باہر جاتی تو ضد خان کے لئے اچھا تھا، اسے سیاسی طور پر فری ہینڈ مل جاتا اور پھر کچھ کر کے دکھاتا۔
بیٹے شہباز
آخر میں تمہیں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جیسے تم نے پہلے کئی بار بھائی کو چھوڑنے کی شرط پر اقتدار حاصل کرنے کی پیشکش رد کی اس بار بھی ایسا ہی کرنا، کہیں لالچ میں آ کر ہاں نہ کر بیٹھنا۔
نواز کو باہر بھجوانے میں تمہارا کردار سب نے سراہا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی یاد رکھنا کہ اصلی سیاست عوامی سیاست ہے۔ بیساکھیوں کے ساتھ ملنے والا اقتدار عارضی اور کمزور ہوتا ہے۔ تاریخ یہ نہیں دیکھتی کہ آپ کتنا عرصہ برسراقتدار رہے ہیں بلکہ یہ دیکھتی ہے کہ آپ کن ذرائع سے برسراقتدار آئے اور آپ نے عوام کے لئے کیا کیا۔
بنو اُمیہ کا 90سال کا طویل اقتدار محرم کے صرف تین دنوں کی یاد نہ مٹا سکا اور بالآخر انہی تین دنوں کے واقعات پر اُٹھے انقلاب نے بنو اُمیہ کا دھڑن تختہ کر دیا۔ جولیس سیزر کو بروٹس نے سینیٹ کی سیڑھیوں میں مار کر حب الوطنی کا نعرہ تو لگا دیا لیکن تاریخ نے بروٹس کو ایک سازشی دوست اور غدار کے نام سے ہی جانا۔
ٹیپو سلطان نے اِس خطے میں پہلی مملکت خداداد کی بنیاد رکھی ٹیپو کو سازشیوں نے غداری سے مروا دیا مگر ٹیپو کے نام کو آج تک کوئی نہ مٹا سکا اور تو اور بھٹو اور بےنظیر کو مٹانے کے لئے کیا کیا نہ کیا گیا مگر اُن کے نام مٹ نہیں سکے۔یہ دونوں سیاست میں احترام ہی پاتے رہے اور تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔ والسلام
ابا جی۔ میاں محمد شریف