• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی گاڑی کو اچانک تیز رفتار بریک لگانے کے بعد سڑک سے نیچے اتار لیا گیا تھا میرے چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑ اور ریگستان تھے۔ میں اپنے نبیﷺ کے شہر میں ان کا مہمان تھا اور آج اپنے دوستوں کے ساتھ وادیٔ جن کی زیارت کے لیے مسجدِ نبویﷺ سے نمازِ عصر کے بعد روانہ ہوا تھا لیکن تیزی سے پھیلتے ہوئے اندھیرے کے سبب سب نے مشترکہ طور پر وادیٔ جن جانے کا ارادہ منسوخ کرتے ہوئے اب ریگستانوں میں اونٹنی کے دودھ کے حصول کے لیے مقامی عربی شخصیات کے باڑے کو تلاش کرنا تھا۔

ہماری گاڑی اب کچھ کم رفتار میں ایسے ہی ایک باڑے کی جانب رواں دواں تھی۔ اونٹنی کا دودھ نبیﷺ کو پسند بھی تھا اور ہمارے لیے یہ ہمارے آقاﷺ کی سنت تھی اور جب شہرِ نبیﷺ میں مہمانِ نبی ہوں اور سنتِ نبیﷺ پر عمل کرنے کا موقع ہو تو ایسی خوش نصیبی سے کیسے منہ موڑا جا سکتا ہے۔ 

کچھ ہی دیر میں پہاڑوں کی اوٹ میں واقع ریگستان میں اونٹوں کے باڑے تک پہنچ چکے تھے، باڑے کے ساتھ ہی تین قیمتی گاڑیاں موجود تھیں، ساتھ ہی ایک قیمتی قالین پر ایک عرب بزرگ براجمان تھے۔ عرب بزرگ سے اونٹنی کا دودھ خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تو بزرگ نے مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بطور مہمان ہمیں بغیر کسی معاوضے کے دودھ پیش کرنے کی پیشکش کی۔ 

جسے ہم نے تبرکِ مدینہ سمجھتے ہوئے قبول کر لیا۔ جب تک ہم تمام دوست پوری طرح سیر نہیں ہو گئے اونٹنی کے دودھ سے ہماری تواضع کی جاتی رہی، عرب مہمان نوازی کا یہ واقعہ ہمیشہ یاد رہے گا۔اگلے دن ایک اور سعودی دوست کی جانب سے مدینہ منورہ سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر ریگستان میں واقع فارم ہائوس پر خصوصی دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ 

اکثر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے درمیان سفر کرتے ہوئے ریگستانوں میں دیکھا کہ سعودی شہری اپنی فیملی کے ساتھ شام کے وقت ریگستان میں اپنی گاڑی کے سائے میں قالین پر بیٹھ کر قہوہ نوشی اور قیام و طعام کیا کرتے ہیں۔ یہ عرب کی ثقافت کا حصہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ 

ہم بھی مدینہ منورہ سے باہر خوبصورت سڑکوں پر تیز رفتاری سے چلتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچے تو ہمارے عرب دوستوں نے ایک خوبصورت خیمے کے ساتھ انگیٹھی پر لکڑی سے آگ جلا رکھی تھی جس پر قہوہ تیار کیا جارہا تھا جسے گاوا کہا جاتا ہے جبکہ ہمارے لیے اونٹ اور بکرے ذبح کرکے بہترین کھانے تیار کئے گئے۔ ساتھ ہی عرب دوستوں کے اونٹوں، بکروں اور گھوڑوں کے فارم بھی تھے، یہاں ایک ایک اونٹ کی قیمت پچاس ہزار ریال سے کم نہ تھی جو پاکستانی روپوں میں بیس لاکھ فی کس تک تھی۔ 

عربی زبان سے عدم واقفیت کے سبب ہمارے میزبان ملک منظور اعوان بطور ترجمان کے خدمات انجام دے رہے تھے لیکن جو گرمجوشی اور محبت ہمارے سعودی دوستوں کی آنکھوں اور جذبات سے عیاں تھی اس کے لیے زبان سے واقف ہونا ضروری نہیں تھا۔ 

ہر تھوڑی دیر بعد سعودی پاکستانی اخوان، یعنی سعودی پاکستانی بھائی بھائی کے نعرے لگ رہے تھے۔ ریگستان میں عربی دوستوں کے ساتھ وقت تیزی سے گزر گیا، واقعی نبیﷺ کے شہر کے لوگ بھی مہربان ہیں، مدینہ منورہ میں گزارے گئے چند دنوں میں ایک اور سچے عاشقِ رسولﷺ سے ملاقات بھی ہوئی۔ 

معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل بھی ان دنوں مدینے منورہ میں موجود تھے۔ میں اور پاک جاپان بزنس کونسل کے صدر رانا عابد حسین گزشتہ چند ماہ سے مولانا طارق جمیل کو جاپان بلوانے کی کوششوں میں مصروف تھے اور آج شہرِ رسولﷺ میں ان سے ملاقات ہوئی، چہرے پر شفقت، آنکھوں میں عشقِ رسولﷺ ایسا کہ باآسانی نظر آجائے، الفاظ میں اپنائیت، بہترین شفقت سے پیش آئے۔ 

ان کے ساتھ ہی مغرب کی نماز ادا کی۔ میں نے ان کو بتایا کہ مجھ سمیت ایک دنیا آپ کے بیانات سے اپنے روحانی اور جسمانی درد دور کرلیتی ہے ہم سب آپ کی صحت کے لیے دعا گو ہیں۔ مولانا نے جاپان آنے کی ہماری دعوت کو قبول کیا۔ میرے لیے مدینہ منورہ کا سفر انتہائی پُر کیف ہے ویسے بھی نومبر کے آخری ہفتے میں مدینے کا موسم انتہائی خوبصورت منظر پیش کرتا ہے جب گرمیوں کا اختتام اور سردیوں کا آغاز ہوتا ہے، بادل پوری طرح آسمان پر چھائے ہوتے ہیں اور ہلکی ہلکی سرد ہوا ئیں دیکھنے والوں کے لیے گنبد صغریٰ اور اس کے اطراف کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیتی ہیں۔ 

ہزاروں کی تعداد میں عاشقان رسولﷺ ایک کونے میں بیٹھ کر اپنے نبیﷺ کی مسجد کا خوبصورت منظر دیکھ کر فیض حاصل کرتے اور برکتیں سمیٹتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر عاشق رسولﷺ کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کی سعادت عطا کرے۔

تازہ ترین