• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچرا ،ڈینگی ، مکھیاں اور کتوں کی یلغار ’شہری جائیں تو جائیں کہاں؟‘

کراچی میں کچرے کے مسائل ،ڈینگی ، مکھیاں اس کے بعد کتوں کی یلغار نے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ویسے تویہاں کے شہری مختلف حوالوں سے آئے دن خوف میں مبتلا رہتے ہی ہیں۔ بڑی سڑکوں سے لے کے چھوٹی گلیوں میں پڑے گڑھے ،جگہ جگہ سیوریج کا بدبو دار پانی، راستوں پر لگے کچرے کے انبار شہریوں کی زندگی اجیرن کرنے کے لیے کافی نہیں تھے کہ آوارہ کتوں کی بہتات نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ یہ خطرناک صورت حال فوری توجہ اور سدباب کی متقاضی ہے۔

خوف و دہشت کی سنگینی کا اندازہ ان اخباری خبروں سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے ،جس میں بتایا جاتا ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں آوارہ کتوں نے بچوں سمیت درجنوں افراد کو کاٹ لیا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ آوارہ کتوں کی غول در غول یلغار نے شہریوں، خاص کر عورتوں اور بچوں کی آزادانہ آمد و رفت کو متاثر کیا ہوا ہے۔ 

کراچی کے تقریباً ہر علاقے میں دن دہاڑے اور رات کو ٹولیوں کی شکل میں دندناتے ہیں ۔رات ہوتے ہی کراچی کی گلیاں کتوں کے بھونکنے سے گونج اٹھتی ہیں۔یہ پیدل چلنے والوں کا چلنا تو مشکل کرتے ہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروںکے پیچھے دوڑنا بھی عین فرض سمجھتے ہیں۔

کراچی میں اب تک آوارہ کتوں کے خاتمے کے لیے کوئی موثر مہم نہیں چلائی گئی۔ صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے کسی بھی سرکاری اسپتال میں ریبیز یونٹ نہیں ،تاہم سول اسپتال کراچی میں کتے کے کاٹے کے علاج کے لیے قائم کیے جانے والے یونٹ کو غیر فعال کردیاگیاہے۔ سول اسپتال میں کتے کے کاٹے کے علاج کی سہولتیں بھی موجود نہیں۔ کراچی میں صرف جناح اسپتال کے شعبہ حادثات میں سگ گزیدگی کے مریضوں اور ریبیز کے مریضوں کے لیے علاج کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، عباسی اسپتال میں کتے کے کاٹے کے مریضوں کو جناح اسپتال منتقل کیا جاتاہے۔

کراچی کی آج کوئی گلی ایسی نہیں، جہاں گندگی کے ڈھیر نہ ہوں اور اس پر آوارہ کتوںکا راج نہ ہو۔ اس کے باوجود سرکاری اداروں کی بے حسی ختم نہ ہو سکی۔ صورتحال پر قابو پانے کے بجائے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور صوبائی حکومت ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق اگر دسمبر میں کتا مار مہم شروع نہ کی گئی تو مارچ تک شہر میں کتوں کی تعداد د گنا ہونے کا اندیشہ ہے۔ کیوں کہ دسمبر اور جنوری کتوں کی افزائش کے ایام ہوتے ہیں۔

آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے اشرافیہ تو متاثر نہیں، البتہ غریب عوام کو ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔ موجودہ صورتحال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کے پاس کتے مارنے کے اختیارات بھی نہیں کیونکہ سندھ حکومت نے یہ بھی چھین لیا، المیہ یہ بھی ہےکہ کُتوں کے مارنے والےکپسول کے فنڈز میں کرپشن کرکے کتوں کو آسان موت مارنےمیں بھی رکاوٹ بنایاجارہا ہے۔ سندھ سرکار کی وہی راگنی کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے ،ساتھ ہی اس کو کراچی کی بجائے پورے ملک کا مسئلہ قرار دے کر اپنے سر سے بوجھ اتار دیا۔ 

کراچی کی مختلف سڑکوں اور گلیوں میں جو کتے آج کل دکھائی دے رہے ہیں . اُن کی بوکھلاہٹ اور افراتفری اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ مقامی کُتے نہیں ہیں، بلکہ شاید کسی اور شہر یا علاقے سے یہاں لاکر چھوڑے گئے ہیں۔آخر شہر بھر میں اچانک کُتوں کی بہتات کیسے بڑھ گئی اور کیوں سب ہی علاقے کے کُتے اپنی فطرت و نفسیات کے خلاف اپنے علاقوں کے لوگوں کو کاٹنے اور اُن کے پیچھے بھونکنے پر مجبور ہوگئے ہیں؟

سک گزیدگی کے بڑھتے واقعات سے شہری خوفزدہ ہیں۔ کئی سال سے کتا مار مہم نہ چلائے جانے کے باعث شہر میں موجود 20 لاکھ سے زائد آوارہ کتے شہریوںکےلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ کراچی کے تین اسپتالوں انڈس، سول اور جناح اسپتال میںکتے کے کاٹنے سے متاثر ہونے والوں کو طبی امداد اور ریبیز سے بچاؤ کے لئے ویکسین دی جاتی ہے، تاہم بڑھتے ہوئے سگ گزیدگی کے واقعات کے باعث اب اینٹی ریبیز انجکشن کی کمی ہو رہی ہے۔آوارہ کتے استپالوں، پارکوں، ریلوے اسٹیشنوں، بس اڈوں، سڑکوں، گلیوں اور اسکولوں کے اندر ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ 

اب شہر میں روزانہ 100 سے زائد کتے کے کاٹنے کے نئے کیسزسامنے آ رہے ہیں۔ سندھ کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال جناح پوسٹ گریجوئیٹ میں رواں برس کتے کے کاٹنے کے تقریباً کئی ہزار کیسز آ چکے ہیں، جبکہ گذشتہ برس یہ تعداد ساڑھے سات ہزار کے قریب تھی۔آوارہ کتوں کے غول شہریوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ایک وقت تھا بلدیہ والے ہر سال کتے مارنے کی مہم چلاتے یوں آوارہ کتوں کی تعداد میں کمی ہوجاتی تھی، اب یہ سلسلہ بھی متروک ہو گیا۔

ان آوارہ کتوں کے کاٹے کی ویکسین کراچی تو کیا، سندھ کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں موجود نہیں ہیں۔ سرجانی ٹاؤن کے 45 سالہ محمد سلیم کو بیٹی کو بچاتے بچاتے کتے نے کاٹ لیا تھا، وہ گزشتہ ایک ہفتے سے زیرِ علاج رہا، اس کے دونوں ہاتھوں پر کتے کے کاٹنے کے زخم تھے، وہ 6 بچوں کا باپ اور گھر کا واحد کفیل تھابے چارہ گزشتہ دنوںسرکاری اسپتالوں میں بروقت ویکسینیشن نہ ہونے کے باعث اسپتال میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔

ایک ماہ قبل بھی سندھ کے ضلع شکارپور میں مرض کی تشخیص میں مبینہ غفلت اور ریبیز ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث ضلع شکار پور کے نواحی گاؤں داؤد ابڑو کے رہائشی میر حسن نے اپنی ما ں کی گود میں دم توڑ دیا۔لاڑکانہ میں آوارہ کتوں نے 6 سالہ حسنین کو بری طرح زخمی کر ڈالا، جسے طبی امداد کے لیے لاڑکانہ سے کراچی، این آئی سی ایچ اسپتال میں زیرِ علاج ہےاور اس کی سرجریز جاری ہیں۔ اس طرح کے کئی واقعات سامنے آرہے ہیں لیکن دیکھا بھی ان دیکھا کیا جارہا ہے کون ہے آخر ان کا ذمدار۔

رگبیز کی ویکسین مرض کی علامت ظاہر ہونے سے پہلے لگوانا ہوتی ہیں ، یہ وائرس دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے ، ایک بار اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے تو پھر مریض کی جان بچانا انتہائی مشکل ہوتا ہے ، دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں، جنہوں نے علامات ظاہر ہونے کے بعد ویکسین لی اور وہ بچ گئے۔

تازہ ترین