اپوزیشن کی چھ سیاسی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام، پاکستان مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی، اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی طرف سے آزادی مارچ، احتجاج کے پلان بی اور پلان سی کے احتجاج اور وزیراعظم کے استعفیٰ و نئے انتخابات کے مطالبہ پر ڈٹ جانے جبکہ پی ٹی آئ کے غیر ملکی فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے فیصلے اور حکمران جماعت کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے حکمرانوں کی دشمن پالیسیوں کی مخالفت کی وجہ سے حکمرانوں پر مسلسل دبائو بڑھتا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن کے ذرائع کے مطابق آزادی مارچ، اپوزیشن کی طرف سے مزید دبائو بڑھانے جبکہ حکمران جماعت کے اتحادیوں کی طرف سےحکومت کی پالیسیوں سے اختلاف سے حکمرانوں کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔
حکمرانوں کی طرف سے سیاستدانوں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کے علاوہ عدلیہ پر بھی تنقید شروع کر دی گئی ہے۔ اپوزیشن ذرائع کے مطابق دھاندلی سے اقتدار میں آنے والے حکمرانوں کے دن گنے جا چکے ہیں اور حکمرانوں کی کشتی بہت جلد ڈوبنے والی ہے۔ پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس حکمرانوں کے لئے خطرے کی بہت بڑی گھنٹی بن چکا ہے۔ حکمرانوں کی ڈوبتی کشتی سے پی ٹی آئی کے سیاسی بھگوڑوں نے چھلانگ لگانے کی تیاری شروع کر دی ہے جبکہ عمران نیازی کو بھی سیاسی طور پر تنہا رہنے کا احساس ہو گیا ہے اور ان کی طرف سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ وہ اکیلے بھی رہ جائیں تو وہ مقابلہ کرتے رہیں گے۔
حکمرانوں کی طرف سے معاشی بہتری کا دعویٰ کیا جا رہا ے لیکن معاشی صورتحال کا جائزہ لینے ملک میں سینکڑوں کارخانوں کی بندش کاروباری سرگرمیوں کے ٹھپ ہونے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی و بے روزگاری سے واضح ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے وعوئوں میں کوئی صداقت نہیں ۔عمران نیازی کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو مفاد پرست قرار دیا جا رہا ہے۔ حکمران اتحاد کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور پنجا ب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الہٰی کی طرف سے مولانا فضل الرحمان کو عظیم سیاستدان قرار دیا گیا۔
اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کے کنٹینر پر9سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو اکٹھا کر کے خود کو اہم سیاستدان ثابت کر چکےہیں آزادی مارچ سے قبل حکمرانوں کی طرف سے بھڑکیں ماری گئیں کہ اپوزیشن حکومت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی لیکن آزادی مارچ شروع ہونے کے بعد حکمرانوں پر دبائو بڑھتا گیا جبکہ بڑھتے ہوئے دبائو کے بعد وزیراعظم کی طرف سے حکمران جماعت کی مذاکراتی ٹیم پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اسے کھڈے لائن لگا کر اتحادی جماعت کے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کو مکمل اختیار دے کر مذاکرات کا ٹاسک دیا گیا۔
مولانا فضل الرحمان کی طرف سے اسلام آباد میں دھرنا ختم کر کے جب پلان بی کے تحت پورے ملک میں احتجاج کا فیصلہ کیا گیا تو حکمرانوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ مولانا فضل الرحمان خالی ہاتھ اسلام آباد سے واپس لوٹ گئے تاہم سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے سابق چیئرمین اور جے یو آئی کے مرکزی رہنما حاجی غلام علی کی طرف سے حکمرانوں کے دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہاگیا کہ حکمرانوں کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ حکمرانوں کی بوکھلاہٹ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہیں لوٹے بلکہ بہت جلد حکمرانوں کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے۔
اپوزیشن کے احتجاج اور بڑھتے ہوئے عوامی دبائو کے علاوہ بی آر ٹی پشاور بھی حکمرانوں کے لئے بہت بڑاطنز بن گیا ہے بی آر ٹی منصوبہ حکمرانوں کے حلق کی ایسی پھنسی ہوئی ہڈی بن گیا ہے جسے حکمران نہ تو نگل سکتے ہیں اور نہ ہی باہر پھینک سکتے ہیں۔ منصوبے میں بار بار تبدیلیوں سے نہ صرف تکمیل میںحد سے زیادہ تاخیر ہو رہی ہے بلکہ اس کی لاگت30ارب روپے سے بڑھ کر110ارب روپے سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ عمران خان کی طرف سے میٹرو بس کو فضول قرار دیتے ہوئے بار بار یہ کہا جاتا رہا کہ اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں منصوبے پر خرچ ہونے والی اربوں روپے کی خطیر رقم عوام کی فلاح و بہبود اور غربت و مہنگائی کے خاتمے پر خرچ کی جائے تاہم اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک بعض مخصوص وجوہات کی بنا پر عمران خان کو پشاور میں بی آر ٹی منصوبے کے لئے آمادہ کروانے میں کامیاب ہو گئے۔
بی آر ٹی منصوبے پر جب 2017میں کام کا آغاز کیا گیا تو وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ اسے چھ ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا چھ ماہ بعد عوام میٹرو بس میں سفر کر سکیں گے اور میٹروبس سروس عوام کے لئے عمران خان کا بہت بڑا تحفہ ہو گا تاہم بی آر ٹی منصوبہ جس پر2017میں کام کا آغاز کیا گیا تھا وہ فروری2019تک بھی مکمل نہ ہو سکا تو موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان کی طرف سے 23مارچ 2019کو اس کا افتتاح کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن پانچ ماہ گزرنے کے باوجود منصوبہ کی تکمیل نہ ہونے پر 14اگست کو اس کی تکمیل کی نوید دی گئی تاہم پھر بھی منصوبے کی تکمیل نہ ہو سکی جبکہ2019کے آخر تک بھی اس کی تکمیل ناممکن ہے بی آر ٹی کے خلاف عوام سیاسی جماعتوں سول سوسائٹی اور تاجروں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے کارخانو مارکیٹ حیات آباد سے چمکنی تک ہزاروں تاجروں و دکانداروں کا کاروبار تباہ ہو چکا ہے اور تاجروں کا اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
بی آر ٹی منصوبے کی وجہ سے پشاور کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے بعض مقامات پر سڑکوں کو تنگ کرنے کی وجہ سے ٹریفک جامنگ معمول بن گیا ہے جس سے عام لوگوں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے سڑکوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے پشاور میں مستقل طور پر ٹریفک جام کا سلسلہ جاری رہے گا۔