• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی چاہتا ہے کہ آج آپ سے کچھ ذاتی باتیں کروں، کچھ یادوں کا باب کھولوں اور زیر لب مسکراتا ہوا کالم سے گزر جاؤں۔ زندگی کے کچھ واقعات اور سبق ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی یاد چہرے پر مسکراہٹ کھلا دیتی ہے، مثلاً یہ کہ میری قائداعظم سے محبت بہت پرانی ہے حالانکہ میں موجودہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے کا رہائشی تھا جہاں عام طور پر سیاسی خبریں بہت دیر سے پہنچتی تھیں، مجھے نہ تقسیم کے واقعات یاد ہیں اور نہ ہی یہ یاد ہے کہ ہمارے ہندو یا سکھ پڑوسی کون تھے، اس کے باوجود قائداعظم سے محبت کیوں تھی مجھے ہرگز علم نہیں۔ میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا، پاکستان بنے کئی برس گزر چکے تھے،ا سکول سے واپس آ رہا تھا تو دیکھا کہ ہمارے ایک بزرگ کسی کو اپنی جوتی سے مار رہے ہیں۔ اس زمانے میں گاؤں کے موچی اصلی ”لیدر“ کے جوتے بناتے تھے جو نوک دار ہوتے تھے، میں نے دیکھا کہ جس جوتے سے وہ اسے مار رہے تھے اس کی نوک ان کے قمیض کے کف میں لگے ہوئے کف لنک سے ٹکرا رہی تھی اور کف لنک میں قائداعظم کی تصویر سجی تھی، میں نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ اسے نہ ماریں، انہوں نے کہا کہ اس نے چوری کی ہے اگر تھانے کے حوالے کیا تو اندر ہو جائے گا اس لئے تھوڑی سے سزا دے کر چھوڑ دوں گا تاکہ آئندہ ایسی حرکات سے باز رہے۔ میں نے فوراً کہا کہ پھر اپنے کف لنک اتار لیں کیونکہ آپ کے جوتے کی نوک کف لنک میں سجی قائداعظم کی تصویر سے ٹکرا رہی ہے اور قائداعظم کی ”بے ادبی“ ہو رہی ہے۔ اس دور میں کف لنک جسے ”شٹڈ“ کہتے تھے اور ٹائی پن اور ”بلوں“ میں قائداعظم کی تصویریں ہوتی تھیں، ان ”بلوں“ کو لوگ اپنی جیبوں اور ٹوپیوں پر ”بکسوئے“ سے لگا لیتے تھے۔ کیلنڈروں پر تو صرف قائداعظم کی اجارہ داری تھی، ہاں بعد میں جب وزیراعظم لیاقت علی خان نے کشمیر کے حوالے سے مٹھی لہراتے ہوئے ہندوستان کو للکارا تھا تو ان کی تصاویر بھی آنے لگی تھیں۔ جن کے نیچے لکھا ہوتا تھا آج یہ بند مٹھی ہمارا قومی نشان ہے۔ دراصل یہ بند مٹھی قومی اتحاد کی علامت تھی جو ان دنوں اپنے پورے عروج پر تھا، آج تو مذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی ہمارا قومی نشان ہے، میں نے آج تک دانستہ کبھی ”کیڑی“ بھی نہیں ماری نہ کبھی جوں مارنے کا شرف حاصل ہوا ہے لیکن بطور پاکستانی بیرون ملک مجھے بھی یوں گھورا جاتا ہے جیسے میں کوئی دہشت گرد ہوں۔
میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا تو اس دور میں وہاں ہر سال ایک مقابلہ مضمون نویسی (ESSAY CONTEST) ہوا کرتا تھا۔ 1963ء میں مقابلہ مضمون نویسی کا موضوع تھا ”قائداعظم کا تصور پاکستان“ میں نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا، رزلٹ کا اعلان کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے کہا کہ اول اور دوم آنے والے طالب علموں کے نمبر برابر ہیں لیکن اول انعام سینئر اسٹوڈنٹس کو دیا جا رہا ہے جس کا کالج میں آخری سال ہے۔
دوم انعام کا مستحق صفدر محمود کو ٹھہرایا گیا ہے، میں انعام لے کر واپس اپنی کرسی پر آیا تو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے میرے دوست نقوی نے کہا ”انعام حاصل کرنے سے انعام کا مستحق ٹھہرایا جانا بڑا اعزاز ہوتا ہے، تم یہی سمجھو تمہیں اول انعام ملا ہے، اب ہم تم سے پارٹی لیں گے“ نقوی ایم اے کرکے فوج کے شعبہ تعلیم میں چلا گیا اور پھر زندگی کے ہجوم میں کھو گیا۔ کھو جانا انسانی مقدر ہے، کوئی زندگی کے ہجوم میں کھو جاتا ہے اور کوئی قبروں کے ہجوم میں گم ہو جاتا ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے مجھے نقوی بہت یاد آتا ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب جماعت اسلامی جیسی بااصول، مہذب اور منظم جماعت نے مجھے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے لئے نامزد کیا تو بے شمار دوستوں اور بہی خواہوں کے پیغامات آئے۔ ان پیغامات میں سے اکثریت کا خلاصہ یہ تھا کہ جماعت اسلامی نیک، باکردار اور پڑھے لکھے مسلمانوں کی جماعت ہے جس کی قیادت اس جاگیردارانہ ماحول میں سادہ طرز زندگی کی امین ہے۔ ایسی نظریاتی جماعت کی جانب سے تمہاری نامزدگی ایک بہت بڑا اعزاز ہے اور یہ بہرحال خوشی کا موقع ہے، ایک کالم نگار دوست نے لکھا کہ محلات میں رہنے والے قائدین کا معیار نامزدگی دولت ہوتا ہے جبکہ جماعت کا معیار کردار ہے۔
آج سے میرا ووٹ جماعت کا ہوا، تمہارے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے، اسے زندگی بھر کا حاصل سمجھو۔ سچی بات یہ ہے کہ اس موقع پر مجھے اپنے کلاس فیلو نقوی کا فقرہ بہت یاد آیا کہ انعام حاصل کرنے سے کہیں بڑا اعزاز اس کا مستحق قرار دیا جانا ہے… جہاں تک میرا تعلق ہے میں اسے صرف اور صرف اللہ کا کرم سمجھتا ہوں۔ عزت بھی وہی دیتا ہے ذلت بھی وہی دیتا ہے۔ کبھی کبھار اللہ سبحانہ تعالیٰ عہدے دے کر ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور کبھی کبھار عہدہ دیئے بغیر عزت عطا کر دیتا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ کتنے بڑے بڑے عہدیدار اور بلند مقامات پر فائز کرسی نشین نفرت کی علامت بن جاتے ہیں اور عزت کی بجائے ذلت کماتے ہیں۔ اقتدار کا رعب، کرسی کا خوف اور دولت کی چمک اور شے ہے جس سے صرف خوشامدی، مفاد پرست اور دولت کمانے والے درباری متاثر ہوتے ہیں اور انہیں فرشی سلام پیش کرتے ہیں جبکہ احترام اور عزت اور شے ہے جو دلوں میں گھر بناتی اور اشاروں سے اظہار پاتی ہے۔ یہ اللہ کی دین ہوتی ہے اور مقام شکر کا درجہ رکھتی ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک یہ معمول کی بات ہو لیکن میں اسے حاصل زیست اور زندگی کی کمائی سمجھتا ہوں۔
میرے نزدیک اس نامزدگی کا اعزاز وزیراعلیٰ بننے سے بھی بڑا اعزاز ہے۔ عہدے اور اختیارات میں نے بہت دیکھے اور بہت برتے، کم کم حکمرانوں کو اقتدار میں جھکتے دیکھا، بہت بڑی اکثریت کو اقتدار میں اکڑتے پایا، ایسے حکمران بھی دیکھے جو انہی لوگوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے تھے جن کے ووٹوں نے انہیں اقتدار سونپا تھا، ایسے بھی دیکھے جن کی گردنیں اکڑی ہوئیں اور ہر ادا مغرور تھی لیکن ایسے کم دیکھے جو انسان کو انسان سمجھتے تھے اور جنہیں یقین تھا کہ اقتدار و اختیار اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ مقدس امانت ہے، اس لئے اس کا استعمال بھی مقدس امانت کی مانند ہی ہونا چاہئے۔ منہ سے کہیں یا نہ کہیں اکثر حکمران اقتدار کو اپنی عظیم شخصیت کا خراج اور اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور اسی طرح اس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔
جب تک اقتدار ان لوگوں کے گھروں میں نہیں اترتا جن کے دل خوف خدا سے منور ہیں، جوابدہی کے احساس سے جھکے ہوئے ہیں اور جو اسے مقدس امانت سمجھتے ہیں۔ اس وقت تک ملک سے خزانہ چوری، قومی وسائل کا ضیاع، کرپشن، شان و شوکت، بے انصافی، اقربا پروری، خوشامد نوازی، اقتدار کے غرور، لاقانونیت اور دولت کی سیاست کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ یہ الگ بات کہ مجھے دور دور تک ایسی قیادت کے برسراقتدار آنے کے آثار نظر نہیں آتے… دراصل قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ہمیں ایسے حکمران نہیں ملے یا ہم نے ایسے حکمران منتخب نہیں کئے جو اقتدار و اختیار اور ملکی خزانے کو قومی مقدس امانت سمجھتے ہوں۔ یقین رکھئے کہ مجھے قائداعظم کسی اور وجہ سے نہیں، صرف اپنے کردار کی وجہ سے پسند ہیں اور میری اس پسند کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔
تازہ ترین