• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کیا ڈراؤنے خواب آپ کے لیے اچھے ہوتے ہیں؟

راحت بھری نیند اس وقت خراب ہوجاتی ہے جب انسان سوتے ہوئے خلاف توقع کوئی واقعہ اپنے خواب میں دیکھ لے، یا پھر ایسا ماحول دیکھ لے جو اس کے دل کو دہلادے لیکن بیداری کے بعد انسان اپنے حواس پر قابو پاکر دوبارہ بھی سونے کی کوشش کرلیتا ہے۔

ایسے خواب اکثر انسانی ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں اب چاہے وہ اس خواب کا ذکر کسی سے کرے یا پھر اپنے دل میں ہی اس بات کو دفن کردے لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس خواب کا مطلب کیا تھا؟

مذہبی اعتبار سے خوابوں کی مختلف تشریحات بیان کی جاتی ہیں اور انہیں کچھ اقسام میں تقسیم کرکے بتایا جاتا ہے کہ کچھ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن کچھ کی تعبیر موجود ہوتی ہے، لیکن سائنس ہر فطری چیز پر اپنا الگ نقطہ نظر رکھتی ہے۔

یہاں ڈراؤنے خواب کے بارے میں جاننے کے لیے سوئٹزرلینڈ اور امریکا کے کچھ محققین نے 18 افراد پر کچھ الگ طرح کا تجربہ کیا۔

ان افراد کی ذہنی سرگرمی کی جانچ کرنے کے لیے ان کے سر پر الیکٹروڈز نصب کیے گئے، سونے کے بعد وہ مختلف اوقات میں اٹھتے رہے جن سے مختلف سوالات کیے گئے جیسا کہ کیا تم نے ڈراؤنا خواب دیکھا؟ اگر ایسا ہے تو کیا تمہیں ڈر لگ رہا ہے؟

محققین نے ایک نقش اخذ کیا کہ ڈراؤنے خواب کے دوران دماغ کے ان حصوں میں بہت زیادہ سرگرمی دیکھنے میں آئی جو حالت بیداری میں انسانی احساسات و جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں۔

ایک دوسرے تجربے میں 89 افراد کو ایک ڈائری دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ وہ ایک ہفتے کے دوران نیند میں دیکھے گئے اپنے خواب اور اپنی کیفیت کو درج کریں۔

تحقیق کے اختتام پر انہوں نے ہر شخص کو منفی اور خوف ناک تصاویر دکھاتے ہوئے ان کا ایم آر آئی اسکین کیا۔

محققین نے اخذ کیا کہ جن لوگوں کو ڈراؤنے خواب کے تجربے سے گزرنا پڑا ان کے دماغ میں وہ حصے جو احساسات کو کنٹرول کرتے ہیں، زیادہ متحرک دکھائی دیے لیکن دوسری جانب جنہیں ڈراؤنے خواب کا تجربہ نہیں ہوسکا ان کے دماغ کے متعلقہ حصے کم متحرک دکھائی دیے۔

یونیورسٹی آف جینیوا کے پروفیسر اور تحقیق دانوں میں سے ایک لیمپروس پیروگیماروس کا کہنا تھا کہ ’ہم خاص طور پر خوف میں دلچسپی لے رہے تھے جس میں یہ جاننا تھا کہ جب ڈراؤنے خواب دکھائی دیتے ہیں تو دماغ کے کونسے حصے متحرک ہوجاتے ہیں؟

اس تحقیق کے پہلے حصے میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ نے تعاون کیا تھا جو ایک ماہ قبل ہیومن برین میپنگ میں شائع ہوئے تھے جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ڈراؤنے خواب حقیقت میں دماغ کے کچھ حصوں کو روشن کر دیتے ہیں۔

لیمپروس پیروگیماروس کہتے ہیں کہ اس تحقیق میں شامل افراد کے ردعمل کی بنیاد پر دماغ کی سرگرمی کا تجزیہ کرنے سے ہمارے سامنے دماغ کے 2 حصوں کی نشاندہی ہوئی جو خواب کے دوران خوف کے تجربے کو محسوس کروانے میں شامل رہتے ہیں یہ حصے انسولا اور سنگیولیٹ کورٹیکس ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پہلی مرتبہ ہم نے خوف کے عصبی تعلق کی نشاندہی کی اور یہ اخذ کیا کہ انسان کی بیداری یا خواب دونوں ہی صورتوں میں دماغ کے وہ حصے متحرک ہوتے ہیں۔

انسولا خطرے کے دوران ہمارے خوف کے ردعمل کو کم کرتا ہے جبکہ سنگیولیٹ کورٹیکس اس کو کنٹرول کرتا ہے۔

دوسرے تجربے میں ڈراؤنے خواب کی وجہ سے انسانی دماغ پر پڑنے والے جسمانی یا نفسیاتی اثرات کو سمجھنے میں مدد ملی۔

تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایک حد تک ڈراؤنے خواب ہمارے لیے فائدہ مند ہیں جو دباؤ والے تجربات کو دور کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں، یا یوں کہہ لیں کہ جب جذبات کو کنٹرول کرنے والے حصے متحرک ہوجاتے ہیں تو یہ ہمارے ذہنی دباؤ کو دور کرتے ہیں۔

یونیورسٹی آف جینیوا کے ایک محقق ورجینائی اسٹرپینِچ کہتی ہیں کہ ہم نے ان افراد کو ہر طرح کی تصاویر دکھائیں، جن میں تشدد، پرشان کن حالات موجود تھے جبکہ کچھ غیر جانب دار تصاویر بھی دکھائیں تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ڈر کی وجہ سے دماغ کا کونسا حصہ زیادہ متحرک رہتا ہے یا احساسات کی وجہ سے مختلف حصے متحرک ہوتے ہیں؟

انہوں نے بتایا کہ ہمارے سامنے یہ بات آئی کہ انسولا اور سنگیولیٹ کورٹیکس کے علاوہ 2 مزید حصے امیگڈالا اور پریفرہنٹل کورٹیکس بھی ایسے حصے ہیں جو احساسات کو کنٹرول کرتے ہیں۔

محققین کا ماننا ہے کہ تکلیف دہ خواب جو نیند کی خرابی اور دباؤ کا باعث بنتے ہیں وہ فائدہ مند نہیں ہیں۔

لیمپروس پیروگیماروس کہتے ہیں کہ اگر خواب کے دوران خوف کی مقدار حد سے بڑھ جائے تو وہ احساسات کو کنٹرول کرنے کا اپنا فائدہ کھو دیتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین