• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کے فن سے لگائو اور مہارت کا اندازہ پتھروں پر محفوظ نقش و نگار سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ فن خواہ کوئی سا بھی ہو، وقت اور محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ جب انسان کے پاس زیادہ وقت تھا، زندگی اتنی مصروف اور تیز نہیں تھی، تو محنت و لگن سے کام کرنے والے فن کاروں نے ایسے ایسے شاہ کار تخلیق کیے، جن کے حُسن کو صدیاں بھی نہیں دُھندلا سکیں۔ آرٹ کے ان شاہ کاروں میں فنِ سنگ تراشی اور مجسّمہ سازی کی تخلیقات سرِفہرست ہیں۔ جن کی تاریخ لاکھوں سال پرانی ہے۔

قابلِ اطمینان بات یہ ہے کہ اس قدیم فن کے ماہر، زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک اپنے فن کے جوہر دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ سنگ تراشی کے لیے ایک مخصوص پتھر استعمال کیا جاتا ہے،جسے ’’سوپ اسٹون‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ تراش خراش کے دوران یہ ٹوٹتا نہیں۔ بلاشبہ، سنگ تراشی ایک محنت طلب اور کُل وقتی کام ہے کہ بعض اوقات ایک فن پارے کی تخلیق میں ہفتے، مہینے لگ جاتے ہیں۔شاید اسی لیے ہمارے یہاں یہ فن اب بہت حد تک معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ 

نیز، زمانے کی تیز رفتار ترقی، جدید سازوسامان اور دست یاب سہولتوں نے بھی اس فن کا حُسن کملا سا دیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مہینوں کی سخت محنت کے بعد، ہاتھ کی کاری گری سے کوئی شاہ کار تخلیق پاتا، لیکن اب وہی کام سنگِ مرمر اور دیگر مصنوعی ٹائلز پر کمپیوٹر گرافکس اور دیگر جدید مشینری سے با آسانی ممکن ہوگیا ہے۔ تاہم، یہ بات تو طے ہے کہ ہاتھ سے تراشے گئے فن پارے کا کمپیوٹرائزڈ فن پاروں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ معروف شاعر و ادیب،احمد ندیم قاسمی نے اپنی ایک نظم “پتھر“ میں کیا خوب کہا ہے کہ ؎ریت سے بُت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار.....ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں۔

ہمارے مُلک میں بھی کچھ ادارے اور لوگ موجود ہیں،جو اس فن کو کسی نہ کسی طور زندہ رکھے ہوئے ہیں، مگر حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسلسل زوال ہی کی جانب گام زن ہے۔ ایسے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے دو باہمّت سنگ تراشوں، کامران حامد اور راشدامین کی تگ و دو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جو اس دَور میں بھی پتھروں کو تراش خراش کر مختلف رنگ و آہنگ دینے کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں۔ گزشتہ دنوں ان فن کاروں نے اپنے ادارے پرواسٹونزاسٹوڈیو کے تحت ’’پھولوں کو کھلنے دو‘‘ کے عنوان سے آرٹس کائونسل آف پاکستان میں سنگ تراشی پر مبنی فن پاروں کی ایک نمائش منعقد کی، جسےآرٹ کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں اور فنونِ لطیفہ کے پرستاروں کی طرف سے بھرپور پزیرائی ملی۔ 2تا20نومبر جاری رہنے والی اس نمائش کا افتتاح اطالوی قونصل جنرل نے کیا۔ 

اس موقعے پر صوبائی وزیر، سعید غنی اور آرٹس کائونسل، کراچی کے صدر احمد شاہ بھی موجود تھے۔ تین ہفتے تک مسلسل جاری رہنے والی اس نمائش میں مصوری، مجسّمہ سازی اور سنگ تراشی سے وابستہ فن کاروں کے علاوہ ڈین آف ڈیپارٹمنٹ آف ویژول اسٹڈیز، کراچی کی دریّہ قاضی سمیت شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور خوب سراہا۔ نمائش کے حوالے سے ’’پرواسٹونز‘‘ کے روحِ رواں، کامران حامد کا کہنا ہے کہ ’’ہماری اس نمائش کا اولّین مقصد ملک میں امن و محبت کی فضا پروان چڑھانا ہے۔ ہم نے پتھروں کو تراش کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کوئی قوم، ملک یا اس کے باشندے جنگ نہیں چاہتے۔ 

ہم سب امن کے خواہاں ہیں، لیکن بدقسمتی سے مٹھی بھر چند ملک دشمن عناصر ہمارا امن و سکون، چین و آرام غارت کرکے افراتفری پھیلاتے ہیں۔ ہم نے سنگ تراشی کے ذریعے پتھروں پر پھول سجاکر یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کو بارود کا ڈھیر بنانے کی بجائے ایک پھلواری، باغیچہ بنائیں۔ امن و سکون کا، سکھ شانتی کا مسکن بنائیں کہ اسی میں ہم سب کی بھلائی اور خیر ہے۔‘‘ راشد امین گزشتہ آٹھ برس سے پرواسٹونز سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ ’’ہم نے پتھروں کی تراش خراش کے ساتھ گرنیڈزو بلٹس، گولابارود اور دیگر جنگی آلات کو پھولوں کے درمیان رکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پھول کہیں بھی کِھل سکتے ہیں۔ 

بس، پتھریلی زمین ہموار کرنے والے ہاتھ اور سوچ ہونی چاہیے۔ ہمارا پیغام ہے کہ اب اپنا نہیں، اپنی آنے والی نسل کا سوچیں جنگ و دہشت گردی کی وجہ سے ہمارے مزاج اور رویّے تبدیل ہوگئے ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں کامران حامد نے بتایا کہ ’’ہم بس یہ سوچ کرپتھروں کو تراشتے ہیں کہ کبھی کبھی امن و محبت کے سوتے بھی تو پھوٹ نکلتے ہیں۔ اس کام کو بڑے پیمانے پر کرنے کے لیے ہمارے پاس زیادہ وسائل نہیں۔ تاہم، ہم اپنی لگن میں مگن مختلف فن پارے تخلیق کیے جاتے ہیں۔ بہرحال، اس نمائش ذریعے ہم نے پتھروں کو تراش کرامن و سلامتی ہی کا پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ دنیا کو بہرکیف امن و محبت کی راہ پر ہی قدم بڑھانے ہوں گے۔‘‘

تازہ ترین