• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • زبردستی نہ کرو، اُس کی روح کسی اور کے ’’قبضہ ٔ محبّت‘‘ میں ہے
  • زمانے بھر کی تلاشی لی، دِل کی نہیں، جو باہر کھوجائیں، وہ مَن میں چُھپے ملتے ہیں
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

میری زبان سے مہرو کا نام سُن کر نواب یوں اُچھلا،جیسے اُسے کسی بچّھو نے کاٹ لیا ہو۔ ’’آپ… آپ مہرو کو کیسے جانتے ہیں… اور کیا تعلق ہے آپ کا مہرو سے…؟‘‘ کچھ رشتوں کا نام یا تعارف نہیں ہوتا نواب صاحب… بس یوں سمجھیے کہ اُس کے بوڑھے مرحوم باپ سے کسی نے وعدہ کیا تھا کہ ایک دن اُس کی لاڈلی بیٹی کو ڈھونڈ نکال کر اس کی ماں سے ملوائے گا اور وہ وعدہ منتقل ہوتے ہوتے میرے پیروں کی زنجیر بن گیا۔ مَیں اور میرا وہ ساتھی، جو اِس وقت آپ کی قید میں ہے۔ 

ہم دونوں ہی مہرو کی تلاش میں یہاں تک پہنچے ہیں، کیوں کہ اُس کا آخری نشان آپ کے اس محل تک آتا ہے۔ اگر وہ آپ کے نکاح میں ہے، تو آپ بھی اُسے اُس کی ماں سے ملوانے ہمارے ساتھ چلیے اور اگر وہ آپ کی قید میں ہے، تو اُسے ہمارےحوالے کردیجیے، کیوں کہ اُسے لیے بِنا ہم یہاں سے واپس نہیں جائیں گے۔ ہاں، البتہ ہماری جان لینا آپ کے اختیار میں ہے… صرف یہی ایک تیسری صُورت ہے، اس مسئلے کےحل کی آپ کے پاس۔‘‘ میری بات ختم ہونے تک نواب کاجسم باقاعدہ لرزنے لگا اور مجھے ایسا لگا کہ وہ ابھی پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا۔ وہ خود کو سنبھالنے کی خاطر بیٹھ گیا۔ ’’مجھ سے بڑا گناہ ہوگیا، کاش… اے کاش! یہ نہ ہوتا۔ 

وہ آخر تک مجھ سے یہی کہتی رہی، مگر…مگر شاید میری عقل ہی پر پردہ پڑگیا تھا۔‘‘ میرادَم اٹکنے لگا۔ کہیں نواب نے مہرو کو مارکر اسی محل کے کسی کونے میں دفنا تو نہیں دیا۔ مَیں نے خود پر قابو رکھنے کی کوشش کی، مگر میری آواز پھر بھی کانپ رہی تھی۔ ’’مہرو زندہ تو ہے ناں۔ خدا کا واسطہ یہ نہ کہیے گا کہ آپ نے اُسے بھی…‘‘ نواب نے تیزی سے میری بات کاٹی …’’مہرو اب یہاں نہیں ہے۔ مَیں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ یہاں سے نکل کر کسی اپنے کے پاس پہنچ گئی ہوگی، لیکن آج پتا چلا کہ وہ تو کہیں کھوگئی ہے… لیکن اگر وہ اپنے گھر نہیں گئی، تو پھر گئی کہاں؟‘‘ مَیں نے ایک بار پھر خود کو کسی تپتے صحرا کے بیچوں بیچ کھڑا پایا اور تھک کر وہیں بیٹھ گیا۔ 

نواب نے مجھے بتایا کہ مہرو، چندا کے پاس قریباً تین ماہ تک اُس کی امانت کے طور پر رہی اور وہ ہر طرح سے اُسے منانےکی کوشش کرتا رہا کہ وہ اس سےنکاح کرلے، مگر مہرو کا بس ایک ہی جواب تھا کہ وہ کسی اور کی امانت ہے اور امانت میں خیانت سے پہلے وہ زہر کھاکر مر جانا پسند کرے گی۔ نواب نے اُسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ اتنا عرصہ گھر سے باہر رہنے والی لڑکی کو یہ معاشرہ تو کیا، اُس لڑکی کے اپنے بھی کسی صُورت قبول نہیں کرتے۔ لیکن مہرو کا اپنے محبوب پر یقین اتنا اٹل تھا کہ کبھی کبھی تو نواب کا اپنا دل بھی دہل جاتا کہ کہیں اس سُرمئی آنکھوں والی لڑکی کی بات سچ ہی نہ ہو اور کسی دن اُس کا رانجھا اپنی ہیر، اپنی مہرو کوڈھونڈتے چندا کےٹھکانے تک نہ آپہنچے۔ 

لہٰذا اُس نےچندا کی مدد سے ایک منصوبہ بنایا اور مہرو کو یہ آسرا دیا کہ اگر مہرو نواب کے ساتھ اُس کےگھر چلی جائے، تو نواب تیمور اُس کے گھر والوں کی تلاش کی کوشش کرے گا اور اگر وہاں مہرو کے لیے سب کچھ ویسا ہی ہوا، جیسا مہرو نے سوچ رکھاہے، تو نواب، مہرو کے گھر والوں کو خود اپنے محل میں بلوا کر مہرو اُن کے حوالے کردے گا۔ کسی بازار یا بدنام اڈّے سے برآمد ہونے سے تو کہیں بہتر ہےکہ مہرو کسی عزّت دار کے گھر سے اپنوں کو ملے۔ مہرو بالآخر اس بات پر آمادہ ہوگئی اور نواب کے ساتھ نواب پور آگئی۔

چند دن تک نواب نے اُسے اپنے کسی واقف کار کے پاس ٹھہرائےرکھا، جہاں مہرو کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی رہی۔ اُس کے بعد نواب، مہرو کو اپنے محل میں لےآیا۔ نواب خاتون اپنےشوہر کی عیاشیوں سےاچھی طرح واقف تھی،مگر مجبور تھی، کیوں کہ مہروکو محل میں بھی ایک الگ تھلگ مہمان خانے کے ویران حصّے میں رکھا گیا تھا… ہاں، اُس کا ماتھا تب ٹھنکا، جب نواب نے دوسرے نکاح کی بات چھیڑی۔ جب کہ نواب نے مہرو کا حوصلہ توڑنے کے لیے اُسے اس کے باپ کے ہاتھوں کسی کے قتل اور باپ کی گرفتاری کی اطلاع بھی پہنچادی، جو اس کے وہ ہرکارے رحیم گڑھ سے لائے تھے، جنہیں نواب نے مہرو کے گائوں، مہرو کے خاندان کی خبر لینے بھیجا تھا۔ اُس وقت تک احمد بھی دیوانہ وار مہرو کی تلاش میں دُور دراز علاقوں میں بھٹک رہا تھا۔ اور نواب کو ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ کہیں وہ ٹھیک جگہ نہ پہنچ جائے۔ باپ کی گرفتاری اور ماں کے پاگل پن کی خبر مہرو پر بجلی بن کر گری اور وہ یوں بستر سےجا لگی کہ پھر ہفتوں شدید بخار میں تپتی رہی۔ 

نواب بیگم کو حویلی کی اُس خادمہ سے ساری خبریں ملتی رہتی تھیں، جسے نواب نے مہرو کی خاص خدمت اور رکھوالی پر رکھا تھا۔ (یہ وہی خادمہ تھی، جواس روز مجھےمحل سے بھاگ جانے کی ترغیب دینے آئی تھی) مہرو کی حالت دن بہ دن بگڑتی جارہی تھی، لہٰذا مجبوراً خادمہ کےمشورے پر نواب تیمور نے اپنی بیگم کو مہرو کے علاج اور تسلّی پر مامور کردیا۔نواب خاتون نےمہرو کی حالت دیکھی، توگھبراگئی۔اُسےایک طرف ایک معصوم،مَن موہنی سی لڑکی پر ترس آتا، جو اس کے شوہر کے چُنگل میں پھنس کر رہ گئی تھی، تو دوسری طرف مہرو کی تیمارداری کے دوران یہ سوچ سوچ کر بھی غصّہ آتا رہتا کہ کل کلاں کو یہی لڑکی صحت یاب ہو کر اُس کی سوکن بن جائے گی، لہٰذا وہ لگاتار اپنے شوہر کی منّت کرتی رہی کہ اِس لڑکی کے ساتھ زبردستی نہ کرے، اِسے آزاد کردے، کیوں کہ اس کی روح کسی اور کے ’’قبضۂ محبت‘‘ میں ہے۔ اور وہ اپنے جسم پر کسی کے تصرّف سے پہلے ہی خود کومار ڈالے گی۔ 

اس لیے یہ کوشش فضول ہے ، مگر نواب کی ’’نوابی ہَٹ‘‘ بھی یہ فیصلہ اور ضد کیے بیٹھی تھی کہ اب تو وہ مہرو ہی سے دوسرا نکاح کرے گا۔ شاید اُسے، اِس کھیل میں مزہ بھی آنے لگا تھا کہ یہاں کسی کی مرضی سے اُسے ’’مائل بہ محبت‘‘ کرنے ہی کو تو اصل مردانگی سمجھا جاتا ہے۔ نواب بیگم کی مسلسل توجّہ، ویدوں، طبیبوں کے بہترین علاج کی بدولت تیسرے ماہ سےمہرو کی حالت سنبھلنے لگی، مگر اُسےایک چُپ سی لگ گئی تھی۔ اُس نے کسی سے بھی بول چال تقریباً بند کردی تھی۔ سارا دن اُداس اپنے کمرےکی بالکونی میں کھڑی کسی کا انتظار کرتی رہتی۔

اور پھر ایک دن جب نواب کو ایک ضروری کام سے دوسرے شہر جانا پڑا، جہاں سے واپسی میں اُسے تین چار دن لگ گئے،مگر وہ آتے ہوئے مہرو کے لیے بہت سے قیمتی تحائف اور سونے، چاندی کے زیورات بھی اُٹھا لایا۔ اُس نے طے کر لیا تھا کہ کسی بھی طرح وہ مہرو کو منا کر اگلے ہفتے ہی اُس سے نکاح کرلے گا، لیکن محل میں داخل ہوتے ہی اُس کے سر پر جیسے آسمان گر پڑا، جب اُسے بتایا گیا کہ مہرو اُسی رات سے محل سے غائب ہے، جس دن نواب شہرسے باہرگیا تھا۔ 

وہ نواب بیگم پر برس پڑا کہ اُس کی مرضی کےبغیر وہ لڑکی اِس محل سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتی، مگرنواب بیگم نے اپنے سہاگ کی قسم اٹھالی کہ یہ سچ ہے کہ وہ نواب اور مہرو کے نکاح کے سخت خلاف تھی اور ہے، کیوں کہ وہ کسی کو بھی اپنی سوکن کا درجہ نہیں دے سکتی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مہرو کی گم شدگی میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں اور یہ کہ اگر نواب کو بیوی کی اتنی بڑی قسم پر بھی یقین نہیں، تو وہ یہی بات قرآن پرحلف لےکربھی دُہراسکتی ہے۔‘‘ نواب کی دیوانگی عروج پر پہنچ چُکی تھی۔ اُس نے آس پاس کا چپّا چپّا چھان مارا۔ ہر طرف مہرو کی تلاش میں کھوجی دوڑائے گئے، مہرو کے گاؤں سے بھی پتا کروایا گیا، مگر مہرو کا گھر ویسا ہی ویران تھااور دروازے پروہی زنگ آلود تالا پڑا تھا۔ 

نواب تیمور دن رات اپنا سر پیٹتا اور منہ نوچتا رہتا کہ اس کی سلطنت، جاگیر سے عین اُس کی ناک کے نیچے سے ایک سالم لڑکی کیسے نکل سکتی ہے، مگر اِس سوال کا جواب اُسے آج تک نہیں ملا… بِنا کسی ثبوت اور گواہ کے، وہ اپنی بیوی کو بھی صرف شک کی بنیاد پر کوئی سزا نہیں دے سکتا تھا۔ ہزار طرح کی باتیں نواب کے ذہن میں آتیں کہ شاید مہرو دوبارہ اپنے بچے کُھچے خاندان تک پہنچ گئی ہو، اور اپنوں نے اُسےزور آوروں کے خوف سے کسی دُور دراز علاقے میں منتقل کردیا ہو، یا شاید وہ راستےہی میں کسی حادثے کا شکار ہوگئی ہو اور اُسے لاوارث سمجھ کر دفنادیا گیا ہو۔ 

کسی بردہ فروش گروہ کے ہتھے چڑھ گئی ہو، جنہوں نے اُسے کسی بازار میں فروخت کردیا ہو، مگر آس پاس کے تمام شہروں میں اس کے کارندے ایسے بازاروں، ٹھکانوں پر بھی مہروکو ڈھونڈ چُکے تھے۔ نواب نے خفیہ طور پر چندا کی حویلی کی خبر بھی لے لی تھی۔ مہرو وہاں بھی نہیں پہنچائی گئی تھی۔ غرض ایک معمّا تھا، جو کبھی حل نہیں ہوا۔ ایک اُلجھی گرہ تھی، جو آج تک سلجھ نہ پائی۔ اور نواب اپنے رِستے زخم چاٹتا ہی رہ گیا۔ وہ زخم جو آج مَیں نے مہرو کے بارے میں سوال کرکے دوبارہ ادھیڑ ڈالے تھے۔ نواب کا شک اب بھی کبھی کبھی نواب بیگم پر جاتا تھا، مگر بات پھر گواہ اور ثبوت کے ترازو پر آکر ٹھہرجاتی تھی۔

مہرو کی خدمت پر مامور بوڑھی خادمہ نواب کی برسوں کی آزمائی ہوئی وفادار تھی… نواب نے اُس پر بھی سختی کی انتہا کردی، مگر اُس کے خلاف بھی کچھ ثابت نہ ہوسکا۔ وہ آخری رات تک نواب کی ہدایت کے مطابق مہرو کو دوا دے کر اور کھانا کھلانے کے بعد اپنے ملحقہ چھوٹے برآمدے والےکمرے میں آکر سو گئی تھی۔ گیٹ پر دربان اور محافظ رات بھر موجود تھے اور کسی کی کوئی غفلت ثابت نہیں ہوسکی تھی۔ 

نواب تیمور نے ہرہر طرح سےاپنی تسلّی کرلی تھی، نوکروں کی طرف سے کوئی کوتاہی سامنے نہیں آئی تھی۔ نواب اپنی بات ختم کر کے سرجُھکائے بیٹھا رہا ۔ رات ڈھل چکی تھی اور کچھ ہی دیر میں صبح کے آثار نمودار ہونے کو تھے۔ کہیں دُور سے فجر کی اذانوں کی آواز آرہی تھی۔ نواب کو اچانک میری بے آرامی کا خیال آیا ’’معاف کیجیے گا‘ اپنی کتھا سُناتے سناتے مجھے وقت کا دھیان ہی نہیں رہا۔ آپ اب آرام کریں۔ آپ کا ساتھی بھی کچھ دیر بعد رِہا ہوکر آپ سے آن ملے گا۔ 

آپ کو اگر میری کسی بات پر ابھی تک شبہ ہو، تو آپ اِسی وقت سارے محل کی تلاشی لے سکتے ہیں۔ شاید آپ ہی کو مہرو کا کچھ سراغ مل جائے۔‘‘ ، ’’نہیں، مجھے آپ کی ہر بات پر پورا یقین ہے۔ کبھی کبھی ہم باہر سارے زمانے کی تلاشی لے لیتے ہیں، اپنی کسی عزیز شے کے گم ہونے پر، بس اپنے دل کی تلاشی نہیں لیتے۔ حالاں کہ جو باہر کھو جائیں، وہ کبھی کبھی دل میں چُھپے ملتےہیں۔‘‘ نواب نے سر ہلایا۔ ’’ٹھیک کہتے ہیں آپ… بس دل کو کھنگالنا باقی رہ گیا ہے۔‘‘ جاتے جاتے میرے ذہن میں ایک خیال آیا، ’’نواب صاحب! کیا آپ مجھے وہ کمرا دکھا سکتےہیں، جہاں مہرو کو قید رکھا گیا تھا۔‘‘ نواب نےتڑپ کر میری طرف دیکھا۔ ’’قید‘‘ کا لفظ شاید انہیں گراں گزرا، مگر قیدی کو قید میں نہ کہتا، تو کیا کہتا میں۔ نواب نے کسی خادم کو آواز دی اور اُسے کچھ ہدایات دے کر میرے ساتھ روانہ کردیا۔

ملازم مختلف راہ داریوں اور خاموش رستوں سے ہوتا ہوا مجھے محل کے ایک الگ تھلگ گوشے کی دوسری منزل پر لے گیا اور ایک لمبی اندھیری راہ داری کے آخری سِرے پر واقع ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے خود وہیں سیڑھیوں کے قریب جما کھڑا رہا۔ ’’وہ والا کمرا ہے۔ آپ دیکھ آئیں… مَیں یہیں آپ کا انتظار کروں گا۔‘‘ مَیں دھیرے دھیرے چھوٹے قدموں سے اُس کمرے کی طرف بڑھا، تو میرے دل اور دماغ میں ایک عجیب شور سا مچا ہوا تھا۔ 

پتا نہیں، قدرت نےکس مصلحت کے تحت مجھے اس اَن جان لڑکی کی کھوج پر مامور کردیا تھا، جس کی صُورت تو کیا، کبھی تصویر تک نہیں دیکھی تھی مَیں نے۔ اور قدم قدم پر شکست ہی کھائی تھی، اب تک اُس کی تلاش میں۔ مجھے پھر سلطان باباکی بات یاد آئی۔ ’’جب جب جو جو ہونا ہوتا ہے… تب تب سو سو ہوتا ہے۔‘‘ مَیں کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ بہت کشادہ اور آراستہ کمرا تھا۔ ایک جانب پرانے طرز کی بڑی سنگھار میز اور اُس میں جَڑا قدِّ آدم آئینہ۔ لکڑی کی بڑی بڑی کھڑکیاں اور اونچے ہوادار روشن دان، ریشمی لہراتے پردے اور بڑی سی مسہری، جس کے چاروں طرف جالی دار پردے لٹکے ہوئے تھے۔ 

کمرے میں بستر کے بالکل سامنے والی دیوار میں بالکونی کی طرف کُھلتی کھڑکی اور دروازہ تھا، جہاں سے باہردُور تک پھیلے باغات اور اُن سے پیچھے کہیں دورکسی جھیل یا ندی کا نظارہ صبح کی ہلکی ملائم روشنی میں بہت بھلا لگ رہا تھا۔ آسمان پر ابھی تک چند ستارے حیرت سے جگمگا رہے تھے، جیسے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں کہ ہمارے باقی دوست تارے کہاں چُھپ گئے؟ مَیں نے آسمان پر دیکھا۔ اُس میں میرے اور زہرا کے نام کا ستارہ موجود نہیں تھا۔ میرا مَن ایک پل ہی میں گہری اُداسی سے بھرگیا۔

کمرے میں ایک عجیب سی خوشبو پھیلی ہوئی تھی، مجھےکمرے کےدَرو دیوار سے مہرو کے رونے، سِسکنے کی آواز سنائی دینے لگی، تو مَیں گھبرا کر بالکونی کے سامنے کُھلتابڑاساشیشےکادروازہ کھول کر بالکونی میں نکل آیا۔ باہر ہوا یخ تھی، مَیں نے چار پانچ لمبے لمبے گہرے سانس لیے اور دوبارہ اندر کی طرف پلٹنے ہی لگا تھا کہ اچانک میری نظر نیچے دُور باغ میں کسی چیز پر پڑی۔ یکایک میرے ذہن میں ایک ساتھ کئی جھماکے ہوئے۔ مَیں نے پھر غور سے اُس طرف دیکھ کر تصدیق کی ہاں، یہ وہی جگہ تھی، جہاں مَیں پہلے بھی ایک بار آچکا تھا۔ میرے اندر بہ یک وقت کئی طوفانی جھکّڑ چلنے لگے۔ مَیں تیزی سے پلٹ کر کمرے سے باہر نکلا۔ 

خادم ابھی تک وہیں باادب کھڑا تھا۔ مَیں نے اُسے شہریار کےکمرے کی طرف چلنےکوکہا، تو وہ چونک گیا، مگرنواب کی طرف سے شاید اُسے یہی ہدایت تھی کہ مَیں جہاں بھی کہوں مجھے پہنچادیا جائے۔ ہم دوبارہ محل کے مرکزی حصّے تک آئے، تو شہریار گھڑسواری کے لیے نکل رہا تھا، ہمیں آتے دیکھ کر اس نے دُور ہی سے ہاتھ ہلایا۔ ’’ارے آپ، اتنی صبح… چلیں گے میرے ساتھ رائیڈنگ کےلیے۔ پتا ہے دوسال بعد میں اپنے پسندیدہ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوا ہوں۔‘‘، ’’نہیں، مَیں تمہاری طرف ہی آرہا تھا۔ تم رائیڈ لے کے آجائو۔ تب تک میں تمہارے کمرے میں تمہاری پینٹنگز دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ شہریار خوش ہوگیا۔ ’’ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔ مَیں نے رات ہی اپنی ایک بہت خاص تصویر مکمل کی ہے، آپ جاکر دیکھیں، مَیں بس نہر تک ایک چکّر لگا کر ابھی لوٹا۔‘‘ شہریار نےگھوڑے کو ایڑھ لگائی اور اُس کے پیچھے اس کے ٹرینر کا گھوڑا بھی دُھول اُڑاتا گم ہوگیا۔ مَیں خادم کے ساتھ آگے بڑھ گیا، شہریار کا کمرا ویسے ہی بےترتیب پڑا تھا۔ 

کینوس، رنگ، ادھوری، مکمل تصویریں… مَیں ایک ایک تصویر اُٹھا کر غور سے دیکھتا اور اُس کی جزئیات پر غور کرتا رہا۔ شہریار واقعی ایک بہت اچھا مصوّر تھا اور اُس کی پینٹنگز بھی بالکل کسی آئینے کے فریم میں قید مختلف لمحوں کی تصویروں جیسی تھیں۔ اس نے زیادہ تر بملا دیوی کے تصوّر کے زاویے سے کینوس پر رنگ بکھیرے تھے۔ کچھ ہی دیر میں چاروں طرف صبح کی روشنی پھیل گئی اور خادم نے مجھے بتایا کہ نواب تیمور اور شہریار بڑے ہال میں ناشتے کی میز پر میرا انتظار کررہے ہیں۔ مَیں نے بخت خان کے بارےمیں پوچھا، تو اس نے بتایا کہ نواب صاحب کےحُکم پر اُسے مہمان خانے میں میرے ہی کمرے میں پہنچایا گیا ہے۔ اور اس کی خواہش پر اُسے وہیں کمرے میں ناشتا بھی دےدیا گیا ہے۔

مَیں نیچے ڈائننگ ہال میں پہنچا۔ تو آج باپ، بیٹا بہت خوش اور آپس میں ماضی کی طرح بے تکلّف باتیں کرتے دکھائی دیئے۔ شہریار نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا ’’کیسی لگی آپ کو میری نئی تصویر؟ ابّا جان نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری تصویروں کی بہت بڑی نمایشں رکھیں گے۔ یہاں بھی اور فارن میں بھی۔‘‘ ،’’اچھا، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ویسے تمہارا کوئی استاد کوئی ٹیچر بھی ہے، یا بس اپنی خداداد صلاحیتوں کےبَل بوتے ہی پر یہ سارا ہنر سیکھا ہے تم نے؟‘‘ شہریار کے بجائےنواب تیمور نےجواب دیا۔ ’’بہت اچھے استادبلکہ اتالیق رہے ہیں، نواب شہریار کے اکبر صاحب۔ میں تو اُنہیں، ان کا استادِ معظّم ہی کہتا ہوں اب بھی۔ بچپن سے شہریار کی تربیت کاذمّہ اُنہی کے سر رہا ہے۔ مگر ضعیف ہوگئے تھے اب وہ بہت۔ 

تو اُنہی کے درخواست پر انہیں ریٹائرکردیا مَیں نے۔ ابھی چند ماہ پہلےہی وہ یہاں سے رخصت ہوئے ہیں۔ یہیں محل کے پچھلے حصّے میں باقی منیجرز اور اسٹاف وغیرہ کے کوارٹرز کے ساتھ ہی رہایش تھی اُن کی بھی۔‘‘ مَیں نے سر ہلایا اور شہریار کی تصویروں کی تعریف کی۔ ’’واقعی تمہاری تصویریں ایک سے بڑھ کر ایک اور کمال ہیں۔ ویسے اگر میں تمہاری تصویری نمایش کاکوئی نام تجویز کرسکتا، تو مَیں اس کا نام ’’انتظار‘‘ تجویز کرتا۔ تمہاری ہر تصویر میں انتظار کی کیفیت اور اُس کی شدّت محسوس کی جاسکتی ہے۔‘‘ نواب تیمور نے چونک کر میری طرف دیکھا ’’گویا آپ کو بھی مصوّری سے کچھ شغف ہے، نام تو وہی تجویز کرسکتاہے، جسے تصویر کے اندر اتر کر اُس کی روح چُھولینے کا فن آتا ہو۔‘‘ مَیں بدستور شہریار کی طرف دیکھتا رہا ’’نہیں نواب صاحب! اتنا ماہر نہیں ہوں مَیں۔ بس اچھی تصویر کی تھوڑی بہت پہچان رکھتا ہوں۔ ویسے شہریارمَیں نےتمہاری تصویروں میں بملا کے مختلف پورٹریٹس آج بڑے غور سے دیکھے ہیں۔ 

مجھے ایسا لگا، جیسے وہ ایک نہیں، دو مختلف لڑکیوں کی تصویریں ہیں۔ کچھ تصویروں میں بملا نے ماتھے پر بِندی لگا رکھی اور کچھ میں نہیں۔ کہیں اس کے بال بندیا سمیت خاص انداز میں بندھے ہوئےہیں اور کہیں کہیں بال کُھلے ہیں… اب تم بتائو کیا میرا اندازہ صحیح ہےکہ وہ بملا کے علاوہ کوئی دوسری لڑکی ہے۔‘‘ میری بات سُن کر شہریار کچھ بوکھلا ساگیااور ہڑبڑا کر بولا ’’نہیں، نہیں… ایک ہی لڑکی کی تصویریں ہیں۔ مختلف زاویے سے۔ شاید اِسی لیے آپ کو فرق محسوس ہوا۔‘‘ مَیں نے غور سے شہریار کو دیکھا۔ ’’تو پھر دونوں کے سنگھار میں اتنا فرق کیوں ہے شہریار! ہاں، البتہ آنکھوں میں اُداسی کی اذیت ایک جیسی ہے۔‘‘ نواب تیمورنے الجھی الجھی نظروں سے میری طرف دیکھا، جیسے اُنہیں میری یہ ضد سمجھ نہ آئی ہو۔ مَیں نے اب براہِ راست شہریار سے سوال کردیا… ’’تمہیں پتا ہے شہریار، وہ دوسری لڑکی، جس کی تصویر تم نے بنائی ہے، اُس کا نام مہرو ہے… مہرو کہاں ہے شہریار …؟‘‘ میری سوال گویا کسی بم کی طرح ان دونوں کے سر پر پَھٹااور شہریار کے ہاتھ میں پکڑا کانٹازمین پر گرگیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین