• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا، اچانک 29نومبر 2019ء کو سرخ جھنڈے اٹھائے مخصوص نوجوان، مزدور، خواجہ سرا اور مختلف این جی اوز کے تنخواہ دار انقلاب، انقلاب اور ایشیا سرخ ہے کے نعرے لگاتے ہوئے اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، ملتان اور دیگر شہروں میں طلبہ یونین کی بحالی کےلئے ٹڈی دل کے حملے کی طرح نکل آئے۔

یہ ایسا مخلوط احتجاج تھا کہ جس میں ہر چیز لال، ڈھول کی تھاپ پر محو رقص تھی۔ اس احتجاج میں مقامی افراد کم اور کے پی، بلوچستان اور کراچی سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔

ولی خاں یونیورسٹی میں قتل ہونے والے مشال خان کے والد اقبال خان بھی شامل تھے۔ اس روز ہمیں اچانک پتا چلا کہ طلبہ یونین پر پابندی جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ پھر اچانک ہی نہ صرف حکومتی وزیروں نے یونین بحالی کے حق میں بیانات داغے بلکہ کئی سیاسی جماعتوں نے اس کی تائید کی۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے تو طلبہ یونین کے انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔

سندھ کے وزیراعلیٰ نے بھی یونینز بحالی کیلئے قانون سازی شروع کرا دی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹ کیا کہ ہم بین الاقوامی جامعات کی بہترین مثالوں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جامع اور قابل عمل ضابطہ اخلاق متعارف کروائیں گے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر طلبہ یونینز پر پابندی کیوں لگی تھی؟ کیا ہم اس پس منظر کو سامنے رکھے بغیر کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟

طلبہ یونین اس وقت تک ایک بہترین نرسری تھیں جب تک بلاتفریق طلبہ کے مسائل حل کرنے کیلئے یہ کام کرتی رہیں لیکن اسی دوران طلبہ یونین انتخابات میں حصہ لینے والی طلبہ تنظیمیں جو کئی مرتبہ ایک ہی کالج اور یونیورسٹی میں جیتیں تو وہ اتنی مضبوط ہو گئیں کہ کالجوں اور یونیورسٹیز کا اسٹاف اور انتظامیہ ان کے ہاتھوں یرغمال بن گئے۔

کالجوں یا یونیورسٹیز میں بغیر میرٹ داخلوں سے لیکر ہاسٹلز پر قبضے اور تو اور لیکچرار تک کی بھرتیاں یونین کے عہدیداروں کی مرضی کے بغیر ناممکن تھیں۔ پسند کے لوگوں کے داخلے ہوتے، کالج فنڈز انتظامیہ کے بجائے یونین کی مرضی سے خرچ ہوتے، ہاسٹل، میس ان طلبہ تنظیموں کیلئے مفت ہوتے پھر جب سیاسی جماعتوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے ان پر اپنی چھاپ لگائی تو یہ یونین اور تنظیمیں مسلح ہوکر ایک دوسرے کے سامنے آ گئیں۔ آہستہ آہستہ یہ تنظیمیں نسلی، فرقہ وارانہ گروہوں میں بٹ گئیں اور ان میں مذہبی، سخت گیریت اور لبرل ازم کے انتہا پسند گروپ پیدا ہو گئے، جب قوم پرستی کے نام پر لسانی تنظیمیں وجود میں آئیں تو پُرتشدد سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔

آئے روز طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم سے طلبہ زخمی اور ہلاک ہوتے رہے۔ ٹرانسپورٹ سے لیکر زمینوں کے قبضے چھڑانے کے کام بعض سیاسی جماعتیں اپنے طلبہ ونگ سے لینے لگیں، یہ وہ حالات تھے جن کے پس منظر میں 9فروری 1984کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء ضابطہ 60جاری کرکے ان پر پابندی لگا دی۔ چونکہ میں خود اس وقت ایف سی کالج میں اسٹوڈنٹ یونین کا جنرل سیکرٹری تھا اور آئے روز ایسی سرگرمیاں نوٹس میں آتی رہیں۔ آج پابندی کو تقریباً 36سال ہوگئے اور دو نسلیں جوان ہو گئی ہیں لیکن یہ پابندی نہیں اٹھائی گئی حالانکہ کئی مرتبہ مسلم لیگ کی حکومت بنی، پی پی حکومت میں رہی مگر وہ طلبہ یونین کے الیکشن نہ کروا سکیں۔

2008میں تو پیپلز پارٹی کی حکومت تھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں ایک سو روز کے اندر طلبہ یونین کو بحال کرنے کا اعلان کیا۔ پھر ملک میں 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ہر کوئی سیاسی جماعت 1973کے آئین کی بحالی کا کریڈٹ لیتی ہے مگر اس میں بھی طلبہ یونین کی بحالی کا ذکر تک نہیں۔ طلبہ یونینز بحال ہونی چاہئیں لیکن آج کے وقت کے تقاضوں کے مطابق، اور ترقی یافتہ اقوام میں جو تعلیمی معیار ہے وہ پیمانہ ہونا چاہئے۔ ہمیں یاد ہونا چاہئے کہ طلبہ یونین پر پابندی لگنے سے پہلے پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی دنیا کی بہترین دو سو یونیورسٹیوں میں شامل تھیں، آج حالیہ جاری دنیا کی 374یونیورسٹیز کی ریٹنگ میں ایک بھی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں۔

اگر کریڈٹ لینے کیلئے یہ حکومت طلبہ یونین کو بحال کرنا چاہتی ہے تو پھر درج ذیل تجاویز کو ضرور زیر غور لانا چاہئے؛ اسکولوں اور انٹرا کالج سطح تک بزم ادب سوسائٹیاں ہونی چاہئیں جہاں طلبہ کو تقریر کرنے اور تحریری ہنر سکھائے جائیں، انہیں کوئز اور اسپورٹس اور سائنسی ہنر سیکھنے کے مواقع ملیں، وہ اپنے آرٹ کو نکھار سکیں۔ تمام پروفیشنل تعلیمی اور ٹیکنیکل اداروں میں مختلف سوسائٹیز ہوں جن میں ڈبیٹنگ، لٹریری، میڈیا، کوئز، موسیقی اور اسپورٹس وغیرہ اور ہر طالب علم کیلئے اپنی پسند کے مطابق حصہ لینا لازمی ہو۔ صرف سوشل سائنسز خصوصاً سیاسیات کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کیلئے یونین کے انتخابات میں حصہ لینے کی شرط ہو اور اس کیلئے بھی ایک جامع ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ان سے بیان حلفی لیا جائے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے، نہ ہی سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بنیں گے۔

سیاسی جماعتوں پر پابندی ہو کہ وہ طلبہ یونین اور سیاست میں مداخلت نہ کر سکیں۔ طلبہ یونین کا دائرہ کار زیادہ تر تعلیمی سرگرمیوں تک محدود ہونا چاہئے۔ اسکالر شپ دلوانے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ میرٹ کی بنیاد پر داخلے اور نوکریوں کیلئے کوشش کرنی چاہئے۔ جدید تعلیمی سہولتوں اور فیسوں کی کمی کیلئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ الیکشن میں حصہ لینے والے طلبہ کیلئے یہ شرط ہونی چاہئے کہ وہ صرف دو مرتبہ حصہ لے سکیں اور وہ بھی صرف ایک ڈگری کے دوران، ریگولر دوسری ڈگری کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ طلبہ کیلئے مختص فنڈز کے استعمال کیلئے ٹیچرز اور طلبہ پر مشتمل کمیٹیاں ہونی چاہئیں، فنڈز کا باقاعدہ حساب اور آڈٹ لازمی قرار دینا چاہئے۔ اس طرح کی دیگر شرائط کی بنیاد پر تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین بحال ہو سکتی ہیں لیکن کیا نجی تعلیمی ادارے یونین بحال کرنے دیں گے اور کیا سیاسی جماعتیں مداخلت نہ کرنے کا بیان حلفی دیں گی؟

تازہ ترین