• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی بحالی‘ دنیا کو جنگ و جدل سے پاک دیکھنے کے آرزومند ہر شخص کے لیے باعثِ اطمینان ہے۔ یہ پیش رفت امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ دورۂ کابل کے فوراً بعد ہوئی ہے جس میں انہوں نے مذاکرات کی بحالی کا عندیہ دیا تھا۔ اب نہ صرف مذاکرات کے دونوں فریقوں بلکہ تمام متعلقہ عناصرکی جانب سے اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جانی چاہئے کہ یہ بات چیت جلد ایسے سمجھوتے پر منتج ہو جس سے عشروں سے عالمی طاقتوں کے خود غرضانہ مفادات کے باعث جنگ کے شعلوں میں جھلستا یہ آفت رسیدہ ملک پائیدار امن و استحکام سے ہم کنار ہو سکے۔ امریکی خبر ایجنسی کے مطابق گزشتہ روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے طالبان کے وفد سے ملاقات کرکے مذاکرات کے اُس سلسلے کو دوبارہ شروع کردیا ہے جو رواں سال ستمبر کے ابتدائی دنوں میں صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے عین اس وقت منسوخ کردیا تھا جب دونوں فریقوں میں تحریری سمجھوتے پر دستخط ہونے میں محض چند گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔ اس کے چند روز بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کے نزدیک طالبان سے مذاکرات کا معاملہ اب ایک مردہ موضوع ہے جبکہ طالبان ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ مذاکرات ہم سے زیادہ امریکہ کی ضرورت ہیں لہٰذا امریکی جلد ہی بات چیت کی بحالی کے لیے واپس آئیں گے اور دنیا نے دیکھا کہ واقعی ایسا ہی ہوا۔ صدر ٹرمپ کے اعلانات کے باوجود امریکی حکام نے چند ہفتوں کے اندر ہی اس سلسلے کی بحالی کے لیے کوششیں شروع کردیں، اس مقصد کے لیے پاکستان کا تعاون بھی حاصل کیا گیا اور بالآخر امریکی نمائندہ خصوصی نے گزشتہ روز طالبان کے اعلیٰ سطحی وفد سے بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ امریکہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات میں ابتدائی طور پر تشدد میں کمی اور مستقل جنگ بندی کے لیے طالبان کو قائل کرنے پر توجہ دی جائے گی جبکہ زلمے خلیل زاد افغان فریقوں یعنی طالبان اور کابل حکومت کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی مذاکرات کی بحالی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مذاکرات کا آغاز وہیں سے ہوا ہے جہاں پر ختم ہوئے تھے۔ ان کے مطابق مذاکرات میں معاہدے پر دستخط اور اس سے متعلق معاملات پر بات چیت کی جائے گی جس کا باضابطہ آغاز اتوار سے ہوگا۔ طالبان ترجمان نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ طالبان کے ڈپٹی لیڈر کے بھائی انس حقانی بھی مذاکرات میں شرکت کررہے ہیں جنہیں گزشتہ ماہ طالبان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں امریکی قید سے رہا کیا گیا تھا۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کی ضرورت ان واقعاتی حقائق سے بخوبی عیاں ہے کہ افغانستان میں انتخابات کے تین ماہ بعد بھی نتائج کا اعلان نہیں ہوسکا ہے، صدر اشرف غنی اور نائب صدر عبداللہ عبداللہ دونوں اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کررہے ہیں، کم از کم آدھے ملک پر طالبان کا تسلط مستحکم ہے اور ان کی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ امریکی افواج اور افغان سیکورٹی فورسز بھی طالبان کے خلاف فضائی اور زمینی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں عام شہری بھی بھاری جانی ومالی نقصان اٹھاتے ہیں۔ دو عشروں سے جاری اس خوں ریزی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اور طالبان اور پھر خود افغان قوتوں کے درمیان پائیدار امن سمجھوتہ عمل میں آئے، اس کے تحت عوام کا حقیقی اعتماد رکھنے والی منتخب اور بااختیار حکومت جلد ازجلد قائم ہو، پھر پوری عالمی برادری افغانستان کی تعمیر نو کے لیے اس حکومت سے مکمل تعاون کرے تاکہ گزشتہ صدی کے آخری عشروں سے جنگ کی تباہ کاریوں کے شکار اس ملک کی تعمیر نو کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔

تازہ ترین