• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں پیشے کے طور پر رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی ابتدا کراچی سے ہوئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے شہر کی قدیم سڑک،بندر روڈ پر ایک اسٹیٹ ایجینسی قائم تھی۔ تاہم، 1950ء کی دہائی میں جب سندھی مسلم سوسائٹی، پی ای سی ایچ ایس، نرسری اور طارق روڈ آباد ہونا شروع ہوئے، تو کراچی میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر پنپنے لگا۔ اسی عشرے میں ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹی قائم ہوئی۔ 

گرچہ 1960ء کی دہائی میں ڈیفینس میں جائیداد کی خرید و فروخت کے رجحان میں اضافہ ہوا، لیکن اس کے باوجود اراضی کی قیمتیں نہایت کم تھیں۔ تاہم، مُلک کے دوسرے حصّوں سے شہریوں کی آمداور جائیداد کی خریدوفروخت میں ان کی دل چسپی کے باعث کراچی میں رئیل اسٹیٹ نے بہ تدریج مارکیٹ کی شکل اختیار کر لی اور پھر پورے مُلک ہی میں جائیداد کی خرید و فروخت باقاعدہ کاروبار اور پاکستانی معیشت کا ایک اہم جُزو بن گئی۔ 

آج جائیداد کی خرید و فروخت اور تعمیرات کا شعبہ اس قدر ترقّی کر گیا ہے کہ اس سے کم و بیش 50صنعتیں وابستہ ہیں۔ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں آنے والے اُتار چڑھائو کا جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ 1970ء سے 1974ء تک اس شعبے کی بڑھوتری عمومی انداز میں ہوئی۔ تاہم، بعد ازاں اُس وقت کے وزیرِ اعظم، ذوالفقار علی بُھٹّو کی جانب سے ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائے جانے کے بعد مارکیٹ میں تیزی آئی، جو 1977ء تک برقرار رہی۔ 

پھر سیلاب سے ہونے والی تباہی اور انتخابات کے ہنگاموں کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں مندی کا رجحان آ گیا، جو 1982ء تک قائم رہا۔ 1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران عالمی طاقتوں کی جانب سے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی حمایت کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر مارکیٹ میں تیزی آئی، جو 1988ء میں جہاز کے حادثے میں صدرِ پاکستان کی موت تک جاری رہی۔ 1988ء سے 1992ء تک جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار دباؤ کا شکار رہا۔ 

گرچہ1992ء سے 1994ء تک اس شعبے میں معمولی بہتری واقع ہوئی، لیکن مجموعی طور پر مندی کا رجحان رہا۔ 1994ء سے 1997ء تک رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں تیزی آئی۔ 1997ء کے بعد اس کاروبار میں ایک مرتبہ پھر مندی واقع ہونا شروع ہوئی، جو 2001ء تک قائم رہی۔ 2001ء میں نائن الیون کے بعد اس مارکیٹ نے تیزی کے سابقہ تمام ریکارڈز توڑ ڈالے اور مارچ 2005ء تک جائیداد کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں۔ 

اس دوران املاک کی تجارت اس قدر بڑھی کہ سفید پوش اور ملازمت پیشہ افراد کے لیے درمیانے درجے کی ہاؤسنگ سوسائٹیز تک میں مکان خریدنا محال ہو گیا۔ 2005ء میں ایک بار پھر مندی کا دَور شروع ہوا، جو 2010ء تک جاری رہا اورماہرین نے جائیداد کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کو اس کا اہم سبب بتایا۔ جولائی 2010ء میں اس سیکٹر میں ایک مرتبہ پھر بہتری واقع ہونا شروع ہوئی، جو 2012ء کے اخیر میں تیزی میں تبدیل ہو گئی اور یہ تیزی نومبر 2015ء تک جاری رہی۔ 

نومبر 2015ء میں معمولی سا جمود پیدا ہونے کے بعد رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں اس قدر تیزی آئی کہ اس نے پچھلے 8،9برس کے تمام ریکارڈز توڑ دیے۔ تاہم، جون 2016ء میں فنانس ایکٹ 2001ء میں ترمیم کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ افراد میں ایک کہرام سا مچ گیا۔ 

اس موقعے پر وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو بائی پاس کرتے ہوئے اور کسی میکینزم کے بغیر ہی زمین کی سرکاری قیمت یعنی ڈی سی ریٹ کو منڈی کی مارکیٹ کے برابر لانے کا عندیہ دیا اور اس کے ساتھ ہی وفاق میں 12سال اور صوبوں میں 6سال بعد زمین کے سرکاری ریٹ کو مارکیٹ ریٹ کے برابر لانے کی کوشش کی، لیکن پھر وفاقی حکومت اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ افراد کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں 20فی صد دستاویزی معیشت اور 80فی صد غیر دستاویزی معیشت پر اتفاق ہو گیا۔

2001ء سے 2005ء اور 2010ء سے 28جون 2016ء تک رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں قلیل المدّت سرمایہ کاری نے پاکستان کی معیشت پر ایسے اَن مٹ نقوش چھوڑے کہ جن کے اثرات آیندہ نسلوں میں بھی نظر آئیں گے۔ اس مختصر المدّت سرمایہ کاری یا سٹّے بازی میں منافعے کی شرح حد درجہ زیادہ ہونے کی وجہ سے سفید پوش کاروباری افراد نے بھی اپنی صنعتوں سے سرمایہ نکال کر رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں لگا نا شروع کردیا۔ 

تاہم، حیرت انگیز اَمر یہ ہے کہ غیر پیداواری سرمایہ کاری کے 6سالہ (2010ء سے 2016ء)دَور میں وفاق اور صوبائی حکومتوں نے جائیداد کی قیمتیں کنٹرول پر کوئی توجّہ نہیں دی۔ حتیٰ کہ ہر سال ڈی سی ریٹ بڑھانے کا سادہ سا کام بھی انجام نہ دیا۔ 

نتیجتاً، بہت سا سیاہ دھن بھی گِرے اکانومی کا حصّہ بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب سرمایہ کار کسی طور 20فی صد دستاویزی معیشت پر بھی آمادہ نہیں اور 28جون 2016ء کے بعد سے پورے مُلک میں رئیل اسٹیٹ سیکٹرپر جمود طاری ہے۔ اس دوران سابق وزیرِ خزانہ، مفتاح اسمٰعیل نے یہ کہا تھا کہ اگر سرمایہ کار مارکیٹ پرائس سے کم نرخ پر جائیداد کے سودوں کی لکھت پڑھت کریں گے، تو حکومت انہیں اس قیمت سے زیادہ رقم دے کر زمین خرید لے گی، لیکن پھر 2018ء میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ افراد اور متعلقہ اداروں کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ایف بی آر ویلیو اور صوبائی حکومتوں کی قیمتوں کے فرق پر 3فی صد کی شرح سے ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی گئی، جس کی وجہ سے اس شعبے میں کچھ لین دین شروع ہوا۔ 

مگر فروری 2019ء میں پی ٹی آئی کی حکومت نے پہلے ایف بی آر ویلیو میں 20 سے 120فی صد تک اضافہ کر دیا اور اس کے ساتھ ہی مزید ایسے اقدامات کیے کہ صوبائی حکومتوں کے املاک کے مقرّر کردہ ریٹس غیر متعلق ہو گئے۔ گو کہ اس سے قبل حکومت نے ایک ایمنسٹی اسکیم بھی متعارف کروائی تھی کہ شہری 1.5فی صد ٹیکس ادا کر کے اپنے اثاثے ظاہر کروا لیں، لیکن اس اسکیم میں بہت کم افراد نے مارکیٹ ریٹ پر اپنے اثاثہ جات ظاہر کیے۔ مزید برآں، حکومت نے گین ٹیکس کا قانون نافذ کیا، جس کی وجہ سے ایک نئے بحران نے جنم لیا۔ 

اس قانون کی رُو سے اگر کسی فرد نے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا اور وہ اپنی کوئی غیر تعمیر شدہ جائیداد 8سال کے دوران اور تعمیر شدہ جائیداد 4سال کے دوران فروخت کرتا ہے، تو گین ٹیکس کی بھاری شرح منافعے کے 5فی صد سے شروع ہو کر 20سے 25فی صد تک پہنچ جاتی ہے اور کئی واقعات میں ٹیکس ہی کروڑوں میں پہنچ جاتا ہے۔ 

حکومت کا ماننا ہے کہ اس قانون کے ذریعے وہ جائیداد میں سرمایہ کاری کے رحجان کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے، لیکن وہ بھی اپنے اہداف حاصل نہیں کر پا رہی، جب کہ رئیل اسٹیٹ سے منسلک افراد اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت اس شعبے کی حوصلہ افزائی کرے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ یہ جمود کتنے عرصے تک برقرار رہتا ہے۔ البتہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں مندی کا بنیادی سبب جائیداد کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہی ہے۔

72سال کے عرصے میں تقریباً 45برس تک رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کا رویّہ یکساں رہا ۔ یعنی کم و بیش 5برس کے عرصے میں ایک مرتبہ مندی انتہا کو چُھوتی ہے اور پھر تیزی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ تیزی کے دَور میں گنجان آباد علاقوں میں زمین کی قیمتیں بڑھنے کا تناسب 5گُنا اور غیر آباد علاقوں میں تقریباً 10گُنا ہوتا ہے، جب کہ مندی کے زمانے میں گنجان آباد علاقوں میں قیمتیں ایک آدھ گُنا، جب کہ غیر آباد علاقوں میں 50فی صد تک گر جاتی ہیں۔ البتہ اب یہ رجحان شاید ہی قائم رہے، کیوں کہ جائیداد کے بنیادی عناصر کے علاوہ دیگر بے تحاشا عوامل تبدیل ہو چکے ہیں۔ لہٰذا، اب یہ دیکھنا ہو گا کہ منڈی کی طاقتیں رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر کیا اثرات مرتّب کریں گی۔ 

اس وقت جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر ایک کروڑ مکانات کی کمی اور سی پیک اور مختلف سیّاحتی منصوبوں کی وجہ سے تعمیراتی شعبے میں بے پناہ امکانات موجود ہیں، وہیں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ہدایات پر حکومت کے معیشت کو رجسٹرکرنے کے اقدامات اس مارکیٹ کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہیں۔ 

رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں لین دین نہ ہونے کے سبب پیداواری صنعتوں میں سرمایہ کاری رُک گئی ہے۔ پھر ہمارے مُلک میں ٹیکس کلچر بھی عام نہیں اور سرمایہ کار معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی بہ جائے طرزِ کُہن پر اَڑے ہوئے ہیں، جب کہ دوسری جانب حکومت کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر ہی کرپٹ افراد کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ دار طبقہ خوف میں مبتلا ہے۔

رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر طاری جمود میں تین قسم کی آراء سامنے آ رہی ہیں۔مثال کے طور پر ایک طبقے کا پچھلے 72سالہ تیزی و مندی کے رجحانات کی بنیاد پر یہ ماننا ہے کہ 2020ء تک اس شعبے میں مندی رہے گی۔ اس طبقے کی رائے یہ ہے کہ حکومت چاہے اپنے مؤقف سے پیچھے ہی کیوں نہ ہٹ جائے، مارکیٹ میں فوری طور پر تیزی نہیں آئے گی، کیوں کہ مارکیٹ کو تیزی کے بعد مندی کے لیے ایک بہانہ درکار ہوتا ہے اور اس مرتبہ اس کے پاس ایک غیر معمولی بہانہ موجود ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹ کا ردِ عمل بھی غیر معمولی ہو گا۔ 

نیز، اگر حکومت اپنے مؤقف پر ڈٹی رہی، تو پھر شاید جائیداد کے لین دین میں تیزی، مندی کا مروّجہ رحجان کبھی نہ آئے۔ اس کے برعکس دوسرے طبقے کا یہ ماننا ہے کہ املاک کی خرید و فروخت اب اسٹاک مارکیٹ کے طرز کی ایک منڈی بن چکی ہے، لہٰذا اب مندی کا دورانیہ طویل نہیں ہو گا اور ذرا سی اصلاح کے بعد رئیل اسٹیٹ مارکیٹ ایک بار پھر مستحکم ہو جائے گی۔ 

رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے تیسرے طبقے کی رائے یہ ہے کہ اگر حکومت احتساب کا عمل روک دے، مُلک بھر میں جائیداد کی سرکاری قیمتوں کو مارکیٹ پرائس سے 5فی صد سے زاید نہ بڑھنے دے اور ذریعۂ آمدن سے متعلق جانچ پڑتال ترک کر دے، تو اس سیکٹر میں حیران کُن تیزی آئے گی، جو دیرپا بھی ہو گی۔ چوں کہ اس طبقے کی توقّعات بہت زیادہ ہیں، لہٰذا اس کا ردِ عمل بھی شدید ہے۔ ان تمام آراء کی اپنی ایک اہمیت ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کی توقّعات پوری ہوں گی۔ 

اگر تاریخ، تحقیق اور حکومت کی رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے متعلق حوصلہ شکن پالیسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پیش گوئی کی جائے، تو ایسا لگتا ہے کہ جائیداد کی تجارت کے رجحانات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی اور ماضی کی طرح ہی معاملات چلتے رہیں گے۔ 

نیز، اگر حکومت مستقبل میں معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی حکمتِ عملی پر کاربند رہی، تو یہ مندی نہ صرف طویل ہو سکتی ہے، بلکہ بدتر شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔ تاہم، اگر اس شعبے سے وابستہ افراد معروضی حقائق کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل ترتیب دیں اور کَساد بازاری کی نیّت کی بہ جائے عوام کی خدمت کے لیے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کریں، تو ان کے لیے مواقع موجود ہیں۔

یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کالے دھن کو سفید میں تبدیل کرنے کی حکومتی کاوشیں کس قدر کام یاب ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں، لیکن یہ بات طے ہے کہ اب معاملات بہتری کی جانب گام زن ہیں اور سرمایہ کاروں کو اسی معاشی ماحول میں رہتے ہوئے کاروبار کرنا ہے۔ جو سرمایہ کار جتنی جلدی اس بات کا ادراک کرے گا، وہ اتنا ہی فائدے میں رہے گا۔

یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مندرجہ بالا تمام اعداد و شمار عام اور اوسط درجے کی جائیدادوں کے ہیں، کیوں کہ کئی مواقع پر تو اچھی لوکیشن کے حامل کمرشل پلاٹس کی قیمتوں میں ہزار گُنا تک اضافہ ہوا ۔ اگر مخصوص علاقوں کے بارے میں تحقیق کی جائے، تو اس قسم کے اعداد و شمار بھی سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ 

گو کہ یہ تمام اعداد و شمار کراچی کے صرف ایک حصّے کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ سے متعلق ہیں، لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر نے اسی علاقے سے جنم لیا اور ایک سروس انڈسٹری (غیر سرکاری طور پر) کی شکل اختیار کرنے کے بعد اس نے پورے مُلک میں ایک تجارتی منڈی کی شکل اختیار کی۔ لہٰذا، کراچی میں جائیداد کی خرید و فروخت میں اُتار چڑھائو کے رجحانات کسی حد تک پورے پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کی نمایندگی کرتے ہیں۔

تازہ ترین