• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سوا سال گزر گیا، علیحدہ سیکرٹریٹ کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی

اگر جہانگیر ترین کی اس بات کو مان لیا جائے کہ جنوبی پنجاب صوبہ یا سیکرٹریٹ کا قیام نہ ہونے کے ذمے دار شاہ محمود قریشی اور وہ نہیں ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کونسی قوتیں ہیں جو عمران خان کو اپنے اس بڑے وعدے کی تکمیل نہیں کرنے دے رہیں۔ پچھلے کئی ماہ تک تو یہ جواز پیش کیا جاتا رہا کہ سول سیکرٹریٹ کے مقام کے معاملہ پر دھڑے بندی موجود ہے اور شاہ محمود قریشی نیز جہانگیر ترین کے درمیان اس حوالے سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں کیونکہ جہانگیر ترین اس سیکرٹریٹ کو ملتان اور بہاولپور کے درمیان کسی مقام پر بنانا چاہتے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی ملتان میں اس کا قیام چاہتے ہیں۔

لیکن اچانک سب نے دیکھا کہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین میں صلح ہوگئی اور دونوں نے مل کر تعمیر و ترقی کے لئے کام کرنے کا عندیہ ظاہر کیا لیکن علیحدہ سیکرٹریٹ کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور ہنوز دور دور تک اس کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ اب جہانگیر ترین نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی کہ اس کی ذمہ داری شاہ محمود قریشی یا ان پر عائد نہیں ہوتی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آخر اس معاملہ میں رکاوٹ کہاں ہے ؟ کیا اسٹیبلشمنٹ اس کی راہ میں حائل ہے یا عمران خان یہ قدم نہیں اٹھانا چاہتے ؟ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اس معاملہ کو مزید طول دینا چاہتی ہے تاکہ آئندہ انتخابات کے قریب جاکر یہ کام کیا جائے اور اس سے سیاسی فائدے حاصل کرکے کم از کم جنوبی پنجاب کی حد تک اپنے ایک بڑے کارنامے کو گنوایا جاسکے۔ بات کچھ بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام اس حوالے سے پی ٹی آئی کی وعدہ خلافی کو تعجب کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

ادھر پنجاب حکومت کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اس حوالے سے اپنا یہ موقف دے چکے ہیں کہ سیکرٹریٹ کے لئے بجٹ مختص کردیا گیا ہے ، اب یہ سیاسی معاملہ ہے اور جب سیاسی قیادت چاہے گی اس پر عمل ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کون ہے ؟ اب تک تو یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ عمران خان، شاہ محمود قریشی اورجہانگیر ترین پارٹی کے تین بڑے ہیں اور جو کچھ بھی ہوتا ہے ان کی مرضی و منشا سے ہوتاہے پھر علیحدہ سیکرٹریٹ کا معاملہ بھی یہ تینوں بڑی شخصیات مل کر طے کیوں نہیں کررہیں ؟ اس سے تو صاف یہی لگ رہا ہے کہ یہ معاملہ سیاست سے زیادہ سٹریٹجک نظر سے دیکھا جارہا ہے ۔ 

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علیحدہ سیکرٹریٹ کی مثال قائم کرنے سے فوراً ہی ملک کے مختلف حصوں خصوصاً پنجاب میں دیگر علاقوں کے لئے بھی علیحدہ انتظامی یونٹ بنانے کا مطالبہ زور پکڑ جائے ۔ سوال یہ ہے کہ اس کے آگے بند کیسے باندھا جائے گا ؟ گڈ گورننس کے لئے افسروں کی اکھاڑ پچھاڑ اپنی جگہ لیکن اتنے بڑے صوبے کو صرف ایک چیف سیکرٹری اور آئی جی کے ذریعے چلانے کی بات کرنا احمقانہ خیال کے زمرے میں آتا ہے ۔

12 کروڑ آبادی کا صوبہ جو دنیا کا پندھوواں بڑا ملک بن سکتا ہے اپنی طرز کی واحد مثال ہے اس کا حل چھوٹے یونٹوں کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مگر لگتا ہے کہ بعض نادیدہ قوتیں پنجاب کو اس طرح رکھنا چاہتی ہیں اور لاہور کی مرکزیت کو برقرار رکھ کر صوبہ چلانے کی جو سوچ ہے اسے تبدیل نہیں ہونے دیا جارہا۔ 

جہانگیر ترین کا اس طرح ہاتھ کھڑے کردینا اس بات کی غمازی ہے کہ جنوبی پنجاب کے لئے علیحدہ سیکرٹریٹ کے قیام کی بساط لپیٹ دی گئی ہے۔ علیحدہ صوبہ تو خیر ایک بے تعبیر خواب ہے لیکن اب علیحدہ سیکرٹریٹ بھی اس بے تعبیری کی زد میں آچکا ہے ۔ سیاسی حوالے سے یہ بات تحریک انصاف کے لئے سب سے بڑا دھچکا ثابت ہوسکتی ہے ، دوسری طرف جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے کوئی ایسے منصوبے بھی نہیں دیئے جارہے جس سے عوام میں کوئی مثبت تاثر پیدا ہوسکے ۔

دیہی پسماندگی ہے اور وہی ترجیحات ہیں جو گزشتہ حکومتوں کی رہی ہیں۔ منصوبوں کا اگر اعلان بھی کیا گیا ہے تو ان کے لئے فنڈز کچھوے کی رفتار سے فراہم کئے جارہے ہیں ، کئی کئی سال لگ سکتے ہیں ان منصوبوں کی تکمیل میں۔ 

یہ صورتحال مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے لئے سیاسی حوالے سے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے لیکن ان دونوں جماعتوں کی سیاست اس وقت مقدمات کے بچنے اور قیادت کو بچانے کے گرد گھوم رہی ہے ، لندن میں مسلم لیگ (ن) کا جو اکٹھ ہوا ہے اس میں کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ مسلم لیگ (ن) آئندہ ملک کی سیاست میں کوئی سرگرم کردار ادا کرنا چاہتی ہے ۔ شہباز شریف کی آمد بھی اگلے کئی برسوں تک ممکن نظر نہیں آرہی تو کیا یہ پارٹی لندن میں بیٹھ کر چلائی جائے گی ؟ کیا اس طرح پاکستان میں اپنے کارکنوں کو پر امید رکھا جاسکے گا ؟ یہ سوالات اہمیت کے حامل ہیں مگر جاوید ہاشمی جیسے پارٹی کے رہنما جنہیں پارٹی کے امور چلانے میں اہمیت نہیں دی جاتی اور جنہیں لندن کے اجلاس میں بھی نہیں بلایا گیا اپنے تئیں پارٹی کو زندہ رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ 

ملتان میں مسلم لیگ (ن) مہنگائی اور حکومت کی انتقامی احتسابی پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ کرتی رہتی ہے جن میں دیگر پارٹی رہنمائوں کے ساتھ جاوید ہاشمی بھی شریک ہوتے ہیں اور ان کا بیانیہ نہ صرف حکومت کے خلاف ہوتا ہے بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی کھری کھری سنا دیتے ہیں۔ 

گزشتہ مظاہرہ اور میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک فاشسٹ حکمران ہے اور فاشسٹ حکمرانوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنا یہ اصولی موقف بھی دہرایا کہ اداروں کے سربراہوں کو توسیع دینے کی بجائے خود کار نظام کے تحت دوسروں کو آگے آنے کا موقع دینا چاہیے۔ 

مگر کیا اکیلے جاوید ہاشمی کی یہ آواز مسلم لیگ (ن) کے ٹھہرے ہوئے سمندر میں کوئی ارتعاش پیدا کرسکتی ہے ؟ کیا مسلم لیگ (ن) موجودہ حالات میں سوائے حکومت کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے کے سڑکوں پر کوئی ایسی منظم تحریک بھی چلا سکتی ہے جو حکومت کے لئے پریشانی کا باعث بنے ؟ اس کا جواب نفی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ، پورا شریف خاندان ملک سے باہر ہے اور مریم نواز شریف بھی باہر جانے کے لئے پَر تول رہی ہیں، ایسے میں بی کیٹگری کی قیادت پارٹی کو کیا سہارا دے سکتی ہے ؟ حالت یہ ہے کہ اس قیادت کو اعتماد کا مینڈیٹ لینے کے لئے لندن جانا پڑا ہے۔ 

آصف علی زرداری کی ضمانت کے بعد پیپلز پارٹی کو جو ریلیف ملا ہے اس ریلیف کے بعد بلاول بھٹو زرداری بھی مریم نواز کی طرح خاموش ہوجائیں گے ؟ کیا پیپلزپارٹی بھی حکومت کے خلاف سیاسی سرگرمیاں معطل کردے گی ؟ اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا جمود ہوگا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو فری ہینڈ مل جائے گا اور وہ با آسانی اپنے پانچ سال پورے کرسکے گی ۔

تازہ ترین
تازہ ترین