• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل کے اسپتال پر حملے پر کون سا ایسا صاحبِ دل ہوگا جس نے اظہارِ رنج و غم نہ کیا ہو۔ وطن عزیز کے در و بام اگرچہ انسانیت سوز واقعات سے مانوس رہے ہیں، دہشت گردی کے دوران تو جو سفاکی ہوئی اُس سے چنگیز و ہلاکو خان کی روح بھی کانپ اٹھی ہوگی، لیکن مہذب کہلائے جانیوالے وکلا و ڈاکٹرز نے لاہور میں جس انانیت کا مظاہرہ کیا، ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ فریقین سر تا پا اُن بے دست و پا بیماروں کے مجرم ہیں جو اپنے درد و زخم کم کرنے اسپتال آئے تھے اور بے یارو مددگار تڑپتے لادوا واپس لوٹے، تین تو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اس سارے سانحہ میں شرمناک کردار نگہبان کہلائے جانے والی اُس پولیس کا ہے، قوم پیٹ کاٹ کر جس پر پیسہ لگاتی ہے، وہ ظلم و بربریت کو ایسی دیکھتی رہی جیسے سب کچھ عین قانون کے مطابق ہو رہا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو یہ کریڈت ضرور جاتا ہے کہ وہ روزِ اول سے ہی اپنے کہے پر آپ پانی پھیرتی رہی ہے۔ وزیروں، مشیروں سے وزیراعظم تک، ہر ایک اس میں اپنا جواب آپ ہے۔ دل کے اسپتال میں جو کچھ ہوا، ہر دل نے ملال کو محسوس کیا ہے۔ جو کچھ چوہان صاحب کے ساتھ ہوا، وہ بھی افسوسناک ہے لیکن جیساکہ ہر خاص و عام کا کہنا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ سیاست میں شائستگی کو رواج رکھنے کیلئے تحریک انصاف بھی کبھی اپنا حصہ ڈالتی۔ ابھی ہفتہ دس بھی نہیں گزرے کہ فیاض چوہان نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے کارنامے شیر شاہ سوری سے زیادہ ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ترقیاتی کاموں و اصلاحات کی طرح شیر شاہ سوری کے دور کے امن و انصاف کا بھی ثانی نہیں۔ پنجاب کے شہروں میں موجودہ حکومت کے آنے کے بعد بدامنی کے جو واقعات ہوئے، بالخصوص لاہور میں جو کچھ 11دسمبر کو ہوا، ایسے کسی واقعہ کا شیر شاہ کے دور میں‘ جنگل میں بھی تصور محال تھا۔ شیر شاہ سوری کا قول تھا ’انصاف سب سے بڑا مذہبی فریضہ ہے‘ بدایوں کے جنگل میں قتل ہونے والے شخص کے قاتلوں کو شیر شاہ نے کیسے ڈھونڈ نکالا تھا، اس سے فیاض چوہان تو آگاہ ہوں گے، ہم یہاں ایک واقعہ مختصر ذکر کرتے ہیں جس کی تفصیلات انگریز مورخ الفسٹن کی کتاب کے علاوہ شیر شاہ سوری کا عہد نامہ و دیگر کتب میں موجود ہے۔ شیر شاہ کا بیٹا اسلام شاہ المعروف عادل شاہ ہاتھی پر آگرہ کی ایک گلی سے گزر رہا تھا، غیر اختیاری طور پر اُس کی نظر ایک عورت پر پڑی، جو گھر کے صحن میں نہا رہی تھی۔ وہ ایک ہندو کی بیوی تھی۔ چہار دیواری نیچی تھی، لہٰذا یہ سوچ کر کہ مبادہ ہاتھی پر سوار اُس کے پیچھے آنے والے دوسرے لشکری عورت کو دیکھ لیں گے، شہزادے نے خبردار کرنے کیلئے ہاتھ میں موجود پھول یا پان کا ایک بیڑا اُس کی طرف پھینکا۔ اس پر عورت بھاگ کر کمرے میں تو چلی گئی، مگر اسے بے حرمتی گردانتے ہوئے شوہر کے ہمراہ شیر شاہ کے دربار میں پہنچ گئی۔ خاتون نے جیسے ہی اپنی بات مکمل کی، عادل شاہ نے وضاحت کرنا چاہی لیکن اس دوران شیر شاہ سوری کا ہاتھ شمشیر کے دستے پر پہنچ چکا تھا۔ وہ شدتِ غضب سے پکار اُٹھا ”انصاف کا تقاضا ہے کہ عادل شاہ کی بیوی اسی طرح گھر میں برہنہ ہوگی اور متاثرہ عورت کا شوہر ہاتھی پر سوار وہی چیز اس پر پھینکے جو عادل نے اسکی بیوی پر پھینکا تھا‘‘۔ پورا دربار کانپ اُٹھا۔ امراء سفارش کرنے لگے۔ شیر شاہ سفارشیں رد کرتے ہوئے گویا ہوا ’’ناموس اس عورت کی بھی ہے‘‘ شوہر یہ سن کر شیر شاہ کے قدموں میں گر پڑا، عاجزی و اصرار کے ساتھ کہنے لگا، مجھے انصاف مل گیا ہے، یہ حکم نافذ نہ کیجئے۔ اس عدل کا چرچا پوری ریاست میں ہوا اور رئوسا تک بھی یہ پیغام پہنچ گیا کہ غریب یا کمتر کی ناموس کسی بادشاہ کے بیٹے سے بھی بڑھ کر ہے۔فردوس عاشق اعوان صاحبہ کا کہنا ہے کہ اسپتال پر حملہ کرنیوالے وکلا میں وزیراعظم کا بھانجا بھی شامل ہے تو کیا موجودہ دور کے شیر شاہ ایسی کوئی مثال یا اس کا عشرِ عشیر بھی قائم کر پائیں گے جیسا کہ پونے 5سو سال پہلے فرید خان المعرو ف شیر شاہ سوری نے قاتم کیا تھا...؟

تازہ ترین