کھارادر کا شمار کراچی کے قدیم اور مصروف ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ شہر کا ایک اہم کاروباری مرکز ہونے کے ناتے یہاں رِکشوں، موٹر سائیکلوں اور دیگر چھوٹی بڑی گاڑیوں کے ہجوم کے علاوہ جا بجا محنت کَش بھی بھاری بھر کم سامان سے لَدی ہتھ گاڑیاں کھینچتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس علاقے میں قدیم عمارتوں کا ایک جہان آباد ہے۔ کھارادر کی چھاگلہ اسٹریٹ (موجودہ نام برکاتی اسٹریٹ) کے ایک کونے پر ’’وزیر مینشن‘‘ نامی ایک تین منزلہ عمارت واقع ہے، جو بانیٔ پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش کے طور پر مشہور ہے۔
وزیر مینشن کا تفصیلی جائزہ پیش کرنے سے قبل بانیٔ پاکستان کی جائے ولادت اوریومِ پیدائش پر روشنی ڈالنا بہتر ہو گا۔ گرچہ سرکاری دستاویزات کی رُو سے یہ طے ہے کہ قائداعظم25دسمبر 1876ء کو کراچی کے علاقے، کھارادر میں پیدا ہوئے۔ تاہم، اس کے باوجود یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بانیٔ پاکستان کراچی میں نہیں، بلکہ جھرک میں پیدا ہوئے۔ یاد رہے ، جھرک، ٹھٹّھہ کی کینجھر جھیل سے کچھ فاصلے پر دریائے سندھ کے دائیں کنارے واقع ایک قصبہ ہے۔ کسی دَور میں اسے ایک تجارتی شہر کی حیثیت حاصل تھی اور یہاں اسماعیلی خوجوں کے سیکڑوں خاندان رہائش پذیر تھے۔ بہرکیف، جہاں تک جھرک میں قائد اعظم کی پیدائش کے دعوے کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں ٹھوس شواہد دست یاب نہیں۔
اس ضمن میں ایک حوالہ سندھی ادبی بورڈ کی ساتویں جماعت کی درسی کتاب کا دیا جاتا ہے، جو 1960ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں درج ہے کہ قائد اعظم جھرک کے قریب واقع ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ اس تناظر میں قائد اعظم اکیڈمی، کراچی کے ڈائریکٹر، خواجہ رضی حیدر نے ایک تحقیقی مضمون ’’قائد اعظم کی جائے پیدائش، کراچی یا جھرک؟‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے، جس میں انہوں نے مختلف محققین و مصنّفین کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ ’’قائد اعظم کی حیات و خدمات پر چَھپنے والی اردو اور انگریزی تحقیقی کُتب میں ان کی جائے پیدائش کراچی درج ہے۔
ان میں سے بیش تر کتابیں قائد اعظم کی زندگی میں شائع ہوئیں اور ان کی نظر سے بھی گزریں۔ دیگر بہت سی کتابیں 1967ء تک، جب فاطمہ جناح حیات تھیں، منظرِ عام پر آئیں اور انہوں نے ان پر اعترض نہیں کیا، بلکہ انہوں نے قائد اعظم کی سوانح عُمری پر مشتمل اپنی کتاب،’’مائی برادر‘‘ میں بھی قائد اعظم کی جائے پیدائش کھارادر، کراچی کو قرار دیا۔ علاوہ ازیں، خود قائد اعظم بھی کراچی ہی کو اپنی جائے پیدائش قرار دیتے تھے۔‘‘
تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر مینشن نامی عمارت ہی میں بانیٔ پاکستان کی ولادت ہوئی؟ اس ضمن میں پائی جانے والی ایک اختلافی رائے کے مطابق آج جس جگہ وزیر مینشن قائم ہے، وہاں قائد اعظم کی پیدائش کے وقت ایک خالی پلاٹ موجود تھا۔ قائد اعظم کے والد، جناح پونجا اس خالی پلاٹ سے ملحقہ مکان میں مقیم تھے، جو اب ایک پلازے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے خواجہ رضی حیدر لکھتے ہیں کہ’’ گرچہ قائد اعظم نے اپنی زندگی میں بارہا کراچی کو اپنی جائے پیدائش قرار دیا، مگر انہوں نے کبھی بھی اُس جگہ کی نشان دہی نہیں کی، جہاں اُن کی ولادت ہوئی تھی۔ لہٰذا، بانیٔ پاکستان کی رحلت کے فوراً بعد یہ سوال اُٹھا کہ کھارادر میں وہ عمارت کہاں واقع ہے، جس میں قائد اعظم نے جنم لیا تھا۔
اس موقعے پر پاکستان کی پہلی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر، کرنل مجید ملک نے وزارت کے تحت نکلنے والے ماہ نامے، ’’ماہِ نو‘‘ کے ادارتی عملے میں شامل صحافی، فضلِ حق قریشی کو قائد اعظم کے کراچی میں مقیم رشتے داروں کو تلاش کرنے کی ذمّے داری سونپی۔ بانیٔ پاکستان کے رشتے داروں کی تلاش کے دوران فضلِ حق قریشی کی فاطمہ بائی نامی ایک خاتون تک رسائی ہوئی، جو کھارادر میں واقع کھلنانی بلڈنگ میں اپنے تین بیٹوں اور دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ مقیم تھیں۔ فاطمہ بائی قائد اعظم کے چچا، وال جی پونجا کے بیٹے، کانگ جی وال جی کی اہلیہ تھیں اور رشتے میں بانیٔ پاکستان کی بھاوج لگتی تھیں۔ فاطمہ بائی کی 1885ء میں وال جی سے شادی ہوئی تھی اور رخصتی کے بعد وہ اُس گھر میں آئی تھیں، جس میں جناح پونجا کی رہائش تھی۔
فاطمہ بائی نے نیو نہم روڈ، کھارادر میں واقع اُس عمارت کی نشان دہی کی، جس میں قائد اعظم پیدا ہوئے تھے۔ فضلِ حق قریشی کے مطابق یہ عمارت معمولی تغیّر و تبدّل کے ساتھ پُرانی بنیادوں پر قائم تھی اور اس کی بالائی منزل میں قائد اعظم کی ولادت ہوئی تھی۔ اکتوبر 1947ء تک اس عمارت کے مالک کراچی کے قدیم باشندے اور کپڑے کے تاجر، گوردھن داس نوتن داس تھے۔
اُن سے یہ عمارت بمبئی کے ایک تاجر، وزیر علی نے 25ہزار روپے میں خرید کر اس کا نام ’’وزیر مینشن‘‘ رکھ دیا۔ 1948ء میں اِس عمارت کی نچلی منزل میں کپڑے کے آڑھتیوں کی دُکانیں تھیں، جب کہ بالائی منزلوں پر وزیر علی کے اہلِ خانہ اور رشتے دار رہتے تھے۔‘‘ واضح رہے قائد اعظم کی ہم شِیرہ، فاطمہ جناح نے بھی اپنے بھائی کی جائے ولادت کے حوالے سے وزیر مینشن کی نشان دہی کی تھی، جس پر 1953ء میں اس عمارت کو خرید کر قومی وَرثہ قرار دیا گیا۔
اپنے والدین کی کاٹھیا واڑ سے کراچی ہجرت اور کھارادر میں سکونت اختیار کرنے کے حوالے سے فاطمہ جناح اپنی کتاب،’’مائی برادر‘‘ میں لکھتی ہیں کہ ’’میرے والد نے دو کمروں کا ایک چھوٹا سا فلیٹ کھارادر کے نیو نہم روڈ پر حاصل کیا۔ یہ علاقہ شہر کا تجارتی دل سمجھا جاتا تھا۔ یہاں متعدد کاروباری خاندان آباد تھے اور ان میں سے کچھ خاندان گجرات اور کاٹھیا واڑ سے آئے تھے۔ جس عمارت میں ہمارا فلیٹ تھا، وہ پتّھر سے تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی چُنائی میں چونے کا مسالا استعمال ہوا تھا، جب کہ چھت اور فرش میں چوبی تختے استعمال کیے گئے تھے۔
ہمارا فلیٹ پہلی منزل پر تھا۔ اس میں ایک خاصی بڑی آہنی بالکونی فُٹ پاتھ کی طرف نکلے ہوئے چھجے پر بنی ہوئی تھی۔ اس بالکونی اور کمروں کا رُخ مغرب کی طرف تھا۔ کراچی میں یہ رُخ بہت اچھا سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس سمت سے سال بھر سمندری ہوا کے تازہ، ٹھنڈے اور فرحت بخش جھونکے آتے رہتے ہیں۔‘‘ وزیر مینشن کی ساخت بالکل مذکورہ بالا طرز کی ہے۔ گرچہ مختلف اوقات میں اس عمارت کی تزئین و آرائش ہوتی رہی ہے، تاہم اس کی بنیادیں پرانے خطوط ہی پر استوار ہیں۔ قائد اعظم کی جائے پیدائش کی طرح اُن کی تاریخِ پیدائش کے حوالے سے بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ کراچی کی قدیم درس گاہ اور قائد اعظم کی مادرِ علمی، سندھ مدرسۃ الاسلام کےداخلہ رجسٹر میں، جسے اب یونی ورسٹی کا درجہ حاصل ہے، قائد اعظم کی تاریخِ پیدائش 20اکتوبر 1875ء درج ہے۔
قائد اعظم کی تاریخِ ولادت کے حوالے سے رضوان احمد نے اپنی کتاب، ’’قائد اعظم: ابتدائی تیس سال‘‘ میں مدلّل بحث کی ہے اور انہوں نے 25دسمبر 1876ء ہی کو دُرست تاریخِ پیدائش تسلیم کیا ہے۔ پھر بانیٔ پاکستان نے بھی اپنی یہی تاریخِ پیدائش بیان کی اور اپنے پاسپورٹ پر بھی 25دسمبر 1876ء ہی کو اپنی تاریخِ ولادت درج کروایا۔
اب بات کرتے ہیں، وزیر مینشن کی۔ بالائی سطور میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ تاریخی عمارت قومی وَرثہ قرار دیے جانے سے قبل وزیر علی نامی شخص کی ملکیت تھی۔ بعد ازاں، حکومتِ پاکستان نے اس کی تزئین و آرائش کی۔ نچلی منزل کو لائبریری اور بالائی منزل کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا، جہاں قائد اعظم کے زیرِ استعمال رہنے والی اشیا کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ یہ میوزیم پہلی مرتبہ 14اگست 1953ء کو عوام کے لیے کھولا گیا۔ تاہم، تزئین و آرائش کی غرض سے کئی مرتبہ عمارت میں عام افراد کی آمد و رفت پر پابندی عاید کی گئی۔ اس وقت وزیر مینشن کا نظم و نسق حکومتِ سندھ کے محکمۂ ثقافت و سیّاحت و نوادرات کے پاس ہے۔
سندھ حکومت نے جون 2018ء میں اس عمارت کو ایک بار پھر عوام کے کھول دیا اور اس تاریخی موقعے کی یادگار تختی داخلی دروازے کے ساتھ ہی اندرونی دیوار پر نصب ہے۔ وزیر مینشن ایک زرد رنگ کی تین منزلہ عمارت ہے اور اس کا داخلی راستہ گلی کی جانب ہے۔ نچلی منزل ہال نُما ہے، جہاں لائبریری قائم ہے۔ لائبریری میں ایک جانب قُفل زدہ الماریاں اور دوسری جانب میز اور کرسیاں رکھی ہیں۔ اس کُتب خانے میں قائد اعظم اور برِ صغیر کی تاریخ سے متعلق کُتب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
اندرونی احاطے میں داخلی دروازے کے سامنے بالائی منزل پر جانے کے لیے لکڑی کا ایک زینہ موجود ہے، جس کی ایک جانب دیوار پر جنوبی افریقا کے انقلابی رہنما، نیلسن منڈیلا کی تصویر اِستادہ ہے۔ یاد رہے کہ 1992ء میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان آئے تھے، تو انہوں نے وزیر مینشن کا بھی دورہ کیا تھا۔ زینے کی دوسری جانب دیوار پر قائد اعظم کی تصویر آویزاں ہے، جس میں انہیں اخبار پڑھتے دکھایا گیا ہے۔
عمارت کی پہلی منزل، جہاں قائد اعظم کے والد، جناح پونجا رہائش پذیر رہے، تین کمروں پر مشتمل ہے اور ہر کمرا دوسرے کمرے میں کھلتا ہے۔ پہلا کمرا بیٹھک کی طرز پر بنایا گیا ہے، جس میں بانیٔ پاکستان کے زیرِ تصرّف رہنے والے صوفے موجود ہیں۔ دوسرے کمرے میں دو بڑی الماریاں رکھی ہیں، جن میں قائد اعظم کی قانون کی کُتب محفوظ ہیں، جب کہ دیوار کی جانب ایک میز اور کرسی موجود ہیں، جنہیں قائد اعظم مطالعے کے وقت استعمال کرتے تھے۔ کمرے کے وسط میں رکھی ایک کُرسی پر انگریزی میں یہ جملہ تحریر ہے کہ ’’ قائد اعظم بطور گورنر جنرل اس کُرسی پر بیٹھ کر کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے تھے۔‘‘ تیسرا کمرا بیڈ رُوم ہے، جہاں بڑی نفاست سے پلنگ، صوفہ اور ایک سنگھار میز رکھی گئی ہے۔
یہ فرنیچر بھی قائد اعظم کے زیرِ استعمال رہا۔ میوزیم کے نگران کے مطابق یہی وہ کمراہے، جہاں محمد علی جناحؒ کی ولادت ہوئی تھی۔ عمارت کی دوسری منزل بھی گرائونڈ فلور کی طرح ہال نُما ہے، جہاں قائد اعظم کی دوسری اہلیہ، رتن بائی کا فرنیچر، قرآنِ پاک کا نُسخہ، بانیٔ پاکستان کے ملبوسات، جوتے اور اُن کےاستعمال میں رہنے والی والی دیگر اشیا موجود ہیں۔ عمارت کی تیسری منزل سندھ رینجرز کے پاس ہے، جہاں عمارت کی نگرانی کی غرض سے چوکی قائم کی گئی ہے۔
ہر چند کہ وزیر مینشن تاریخی وَرثے اور میوزیم کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن وہاں تصویر کَشی ممنوع ہے۔ اس سلسلے میں انتظامیہ یہ جواز پیش کرتی ہے کہ شہری تصویریں کھینچ کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتے ہیں۔ دوسری جانب باہر سے عمارت کو دیکھ کر بالکل بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ بانیٔ پاکستان کی جائے پیدائش ہے اور اسے تاریخی وَرثہ قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اس میں دل چسپی نہیں لیتے۔ البتہ کبھی کبھار طلبہ، فیملیز اور اہم ملکی و غیر ملکی شخصیات یہاں کا دورہ کر لیتی ہیں۔ پھر یہ تاریخی عمارت ایک عرصے تک بند بھی پڑی رہی۔
تاہم، اگر وزیر مینشن کے دروازے عوام پر بار بار بند کرنے کا سلسلہ ترک کر دیا جائے اور اس کی لائبریری میں موجود کُتب تک شہریوں کو رسائی دی جائے، تو عوام دیگر مقامات کے علاوہ اس تاریخی عمارت کی سیر کے لیے بھی ضرور آئیں گے اور یہاں موجود اشیا میں اپنے قائد کا لمس محسوس کریں گے۔ بِلا شُبہ وزیر مینشن کی عمارت ڈیڑھ صدی قبل کی داستان بیان کرتی ہے اور اس کی سیر کے لیے آنے والے چند لمحوں کے لیے ماضی کی وادیوں میں کھو جاتے ہیں۔