کرّۂ ارض کا 75فی صد حصّہ پانی پر مشتمل ہے ۔ کم و بیش 3ارب انسان سمندروں، دریائوں سمیت دیگر آبی ذخائر سے خوراک حاصل کرتے ہیں اور سمندروں، دریائوں میں پائی جانے والی مچھلیاں ،نیز دوسری آبی حیات ہزاروں برس سے انسانی خوراک اور روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ پھر موسم، درجۂ حرارت اور آب و ہوا میں تبدیلی کا انحصار بھی سمندر پر ہے۔ لہٰذا، اگر سمندری آلودگی کے نتیجے میں بنی نوع انسان ان وسائل سے محروم ہو جائے، تو یہ انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہوگا۔
شاید انسان یہ سمجھتا ہے کہ سمندر نے اپنی بے پناہ وسعت کے باعث اُسے اپنے ساتھ ہر قسم کی بد سلوکی کی اجازت دے رکھی ہے، لیکن در حقیقت سمندر کو آلودہ کرنے کا رویّہ نہ صرف توہین آمیز ، بلکہ خطرناک بھی ہے۔ سمندروں کو صنعتی، زرعی اور جوہری فُضلے سے گندا کرنے کا سلسلہ تسلسل سے جاری ہے، جس کے پیشِ نظر ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ رُجحان اسی طرح برقرار رہا، تو 2050ء میں دُنیا بھر کے سمندروں میں مچھلیاں کم اور پلاسٹک زیادہ ہوگا۔
یاد رہے کہ بنی نوع انسان اور کُرّۂ ارض کی بقا کے لیے سمندر کا اندرونی ماحول برقراررکھناناگزیر ہے، جب کہ عصرِ حاضر میں کِرم کُش ادویہ اور صنعتی فُضلے نے سمندری حیات کو بربادی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ انسان نے اپنی بے اعتدالی سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی ہُنر مندی کی بہ دولت فطری قوّتوں سے آزاد ہو کر خود اپنا دشمن اور اپنی ہی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چُکا ہے اور اگر سمندری آلودگی کو روکا نہ جا سکا، تو یہ انسان کی اپنے ہاتھوں شکست ہو گی۔آلودگی کوئی محدود یا انفرادی مسئلہ نہیں، بلکہ آج یہ ایک عالمی مسئلہ بن چُکی ہے۔
صنعت کاری و جوہری توانائی کی منفی سرگرمیوں اور کنزیومر ازم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موسمی تغیّرات سے زراعت پر منفی اثرات مرتّب ہونے کے علاوہ پانی کی قلّت بھی واقع ہو رہی ہے، جب کہ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ فضا آلودہ کرنے والی 30فی صد گرین ہائوس گیسز کا اخراج زرعی سرگرمیوں کے باعث ہو رہا ہے۔ چاہے، صنعت کاری کا چوتھا انقلاب ہو یا علمی بنیاد پر استوار معیشت، انسان نے اپنی ہوس کے ذریعے دُنیا کی تباہی کا سامان پیدا کر رکھا ہے، البتہ ماہرین یہ امید بھی ظاہر کرتے ہیں کہ انسان آٹومیشن (خود کاریت) اور ٹیکنالوجی کا دُرست استعمال کر کے نہ صرف غذائی پیداوار میں اضافہ کر سکتا ہے، بلکہ سمندر اور اپنے ماحولیاتی نظام کو بھی بہتر بنا سکتا ہے، مگر حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ایک عرصے سے سمندروں اور کُرّۂ ارض کے ماحولیاتی نظام میں بگاڑ پیدا کیا جا رہا ہے اور یہ فطرت سے محاذ آرائی کے مترادف ہے۔ اس وقت خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز کا 9/10حصّہ سمندروں نے جذب کر رکھا ہے۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ساحلی مرجانی چٹانیں (مونگے کی چٹانیں) تباہی کا شکار ہو رہی ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو 2050ء تک یہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گی۔
واضح رہے کہ سمندر میں پھینکا جانے والا پلاسٹک بھی مچھلیاں کھا جاتی ہیں اور یہ عمل انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے، لیکن اس کا تدراک نہیں کیا جا رہا۔ نیز، شارک بھی مچھلیاں کھاتی ہے اور اس طرح اس کا زندہ رہنا بھی محال ہو جائے گا، جب کہ سمندر آبی حیات کی وجہ سے زندہ ہے ۔ اگر سمندر کی موت ہو گئی، تو اس کائنات کا وجود کیسے برقرار رہے گا۔ گرچہ چند برس قبل ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پیرس میں کانفرنس منعقد ہوئی تھی، لیکن اس موقعے پر ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی جا رہیں۔
بہرکیف،اپنی زمین کو بود و باش کے قابل رکھنے کا فیصلہ انسان نے خود کرنا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان نے قیامت سے پہلے ہی قیامت برپا کرنے کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ بنی نوع انسان 40ہزار سال سے بھی زاید عرصے سے بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ کائنات تسخیر کرنے میں مصروف ہے۔ اس نے دوسری تمام مخلوقات پر اپنا تسلّط قائم کر کے فطرت کی وسیع طاقتوں کو اپنا مطیع کر لیا ہے،اس نے نسل اور طبقات کی بنیاد پر معاشروں کی بنیاد رکھی ،یہاں تک کہ کُرّۂ ارض کا کوئی ایک گوشہ بھی اس کی جانچ پڑتال سے نہ بچ سکا۔ ایک جانب سائنس کی منفی ترقّی نے انسان کو با شعور نہیں ہونے دیا، تو دوسری طرف جہالت کا اندھیرا بھی لامحدود ہے اور اس تاریکی میں ڈُوبے غُربت کے مارے افراد خود پر اپنے ماضی کے دل فریب طبقاتی امتیاز اور احساسِ برتری کا خول چڑھائے اپنی عظمتِ رفتہ کے گیت الاپ رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جہالت اور منفی ترقّی کے درمیان تعلیم فروشی ابہام پیدا کر رہی ہے۔ مروّجہ تعلیمی نظام میں آلودگی کے خاتمے، ماحولیاتی نظام کی بہتری اور سمندروں کی حفاظت کو قابلِ ذکر مقام نہیں دیا جا رہا۔ ترقّی کے دعوے داروں نے دریائوں ، سمندروں پر اپنی مرضی مسلّط کر دی ۔ دولت و مسرّت کی غیر منصفانہ تقسیم نے زمین سے درختوں کا صفایا کر دیا اور آج انسان فضائے بسیط میں اُڑتا چلا جا رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ شاید اس نے فتحِ کامل حاصل کر لی ہے، لیکن اس کی تصدیق مشکوک ہے۔
تاریخِ اقوامِ عالم گواہ ہے کہ انسان نے اپنی حرص و ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر زرعی اراضی کے حصول اور فلگ شگاف عمارتوں کی تعمیر کے لیے جنگلات کے جنگلات کاٹ ڈالے۔زرعی اراضی کی تباہی، کٹائو، آلودہ ہوا اورپانی، جنگلی حیات کا مفقود ہو جانا، کُوڑا کرکٹ کے انبار، دیہی مناظر کی مسخ شُدہ شکل اور واضح رفتار سے آبادی میں اضافہ جدید رموز کا کڑوا پھل ہیں۔ یہ تمام عوامل کُرّۂ ارض کے لیے خطرہ بن چُکے ہیں۔ آج دُنیا میں کہیں خشک سالی ہے، تو کہیں طوفانوں اور برف باری کا زور ہے ۔ پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے، لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کا شعور عوام میں ہے اور نہ ہی حُکم ران اس مسئلے پر بات کرنے کے قابل ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عصرِ حاضر میں کیمیائی کھاد، کِرم کُش ادویہ، اسٹیرائیڈز، اینٹی بائیوٹکس کے استعمال اور فوڈ پروسیسنگ کے جدید طریقوں کی وجہ سے اجناس، مرغیاں، خوردنی تیل اور گھی وغیرہ زہر بن چُکے ہیں۔ کارخانوں سے نکلنے والا دُھواں، آبی بخارات کے ساتھ مل کر تیزابی بارشیں برسانے کا سبب بن رہا ہے اور پودوں، درختوں کی بہ جائے بلند و بالا عمارتیں، بے تحاشا ٹریفک، آبادی کا پھیلاؤ، گندگی اور آلودگی مل کر شہروں کو تباہ کر رہے ہیں، جس کا تدارک صرف شجر کاری ہی سے ممکن ہے۔
کراچی سمیت دُنیا بَھر میں مُہلک گیسز کا اخراج غیر معمولی حد تک بڑھ چُکا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف امراض پھیل رہے ہیں۔ دُنیا بھر کے صنعتی مراکز سے نکلنے والا تیزابی دُھواں اور کیمیائی سیال، کیڑے مار ادویہ کا بہ کثرت استعمال، دُخانی سواریوں اور نسیم خور ہوائی جہازوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافے سمیت دیگر عوامل مل کر دریاؤں، سمندروں اور فضا کو آلودہ کر رہے ہیں، جس کے سبب طرح طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب سمندر میں موجود مچھلیوں کے شکار کے لیے نہایت ظالمانہ طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔
حاملہ مچھلیوں کا بے دردی سے شکار کرکے اُن کی نسلیں ختم کی جا رہی ہیں۔ نیز، شکار پر پابندی کے مہینوں میں بھی مچھلیاں پکڑنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ سمندر اور آبی حیات کے تحفّظ کے لیے کیے گئے معاہدوں کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں، حالاں کہ سمندر ہمارا مشترکہ وَرثہ ہے۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ 19ویں صدی میں شروع ہوا اور اس وقت عروج پر ہے۔ مونگے کی چٹانیں کم ہونے اور درجۂ حرارت میں اضافے سے آبی حیات ٹھنڈے شمالی علاقوں کی جانب منتقل ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے سمندروں میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔
پانی میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کا ارتکاز تیزابیت بڑھا رہا ہے اور اسی سبب آبی حیات کے گرد و پیش کا ماحول زہریلا ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم، اس ساری صُورتِ حال میں حوصلہ افزابات یہ ہے کہ حال ہی میں کچھ سائنس دانوں نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سمندروں کا معائنہ شروع کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ڈرون طیّاروں، سیٹلائٹ امیجز اور ریڈیو میٹری کو بہتر انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مستقبل میں ان تمام اقدامات کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کو بھی روکا جائے گا اور سی فوڈ انڈسٹری کو قوانین پر عمل درآمد پر مجبور کیا جائے گا۔
معائنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے سمندر کے دُور افتادہ اور نظروں سے اوجھل گوشے بھی سائنس دانوں کی نظر میں ہوں گے۔ گرچہ یہ ایک اچھی کاوش ہے، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سمندر کو زرعی و صنعتی فُضلے اور پلاسٹک سے کس طرح محفوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں تاحال ماہرین کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔
دوسری جانب دُنیا بھر میں مچھلی کی کھپت بہت بڑھ گئی ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2014ء میں صرف چینی باشندے شکار کی گئی 50فی صد مچھلی کھا گئے، لیکن دوسری جانب اس وقت سمندر میں 1.5ٹریلین ٹن پلاسٹک موجود ہے ، جس کی مقدار میں ہر سال 8ملین ٹن کا اضافہ ہو رہا ہے۔
آلودگی اور اقتصادی افزائش کی تباہ کاریاں سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں، جس نے دُنیا کو طبقاتی نظام اور منافع خوری کے چنگل میں پھنسا دیا۔ انسان پر انسان کی برتری کے مظاہر برِ اعظم افریقا اور تیسری دُنیا کے دیگر ممالک میں بُھوک و افلاس اور بیماریوں کی شکل میں نظر آرہے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، دُنیا کے بعض دُور دراز علاقوں میں بُھوک اور غُربت کا راج اُس سماجی قیمت کا حصّہ ہے، جو انسان کو معاشی و سیاسی اعتبار سے برتر اور مال دار خطّوں کی اقتصادی ترقّی میں اضافے کے لیے اداکرنا پڑرہی ہے۔
ایک صارف تہذیب (کنزیومر ازم، سُود، قرضے وغیرہ) میں پس ماندگی دراصل یک طرفہ ترقّی کی پیداوار ہے۔ صنعتی طور پر ترقّی یافتہ ممالک کی جانب سے پھیلائی گئی آلودگی کا نشانہ غریب ممالک بن رہے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب انتہائی غیر متوازن سائنسی و صنعتی ترقّی ہے۔ مثلاً زیرِ زمین پانی کی کمی کے باعث سمندر میٹھے پانی کی خاطر زرعی اراضی کو نگل رہا ہے۔ پاکستان میں بدین اس کی ایک مثال ہے۔
اس وقت صرف 2.5فی صد پینے کے لیے دست یاب ہے اور پانی کی لامحدود رسد ازل سے خام خیالی ہے۔ اس وقت زراعت میں 70فی صد پانی (میٹھا) استعمال ہو رہا ہے اور ورلڈ واٹر کائونسل کے مطابق2020ء تک دُنیا کو 17فی صد مزید پانی درکار ہو گا۔ کائونسل کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے علاوہ آب پاشی کے ناقص نظام اور آلودگی نے بھی صاف پانی کی شدید قلّت پیدا کر دی ہے اور اس کے مظاہر پاکستان سمیت تیسری دُنیا کے دوسرے کئی ممالک میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر دُنیا بھر کے سائنس دانوں نے آلودگی بالخصوص سمندری آلودگی کے تدارک کے لیے اقدامات نہ کیے، تو ہو سکتا ہے کہ 21ویں صدی بنی نوع انسان کے لیے آخری صدی ثابت ہو۔