• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چاہت میں دنیا داری کو بالائے طاق رکھ کر اور عشق کی مجبوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے میں ہی حکومت کو پسند کرنا چاہتا ہوں۔ سو اس موقع پر بےشک دوستوں کے پاس موضوع بھی اہم ہے اور لفاظی بھی زبردست مگر میرے لئے نہایت مشکل ہے کہ مشرف فیصلہ پر شادیانے بجاؤں یا اس فیصلے پر نظرثانی کی ’’درخواست‘‘ کروں۔ وجہ جرأت اظہار کی کمی ہے نہ اندیشوں سے تعلق داری ہے۔ وجہ محض یہ کہ میں چاہت کی شاہراہ پر گامزن ہونا چاہتا ہوں۔ جی چاہتا ہے میں بھی پیار میں اندھا ہو جاؤں اور حکومت کے گیت گاؤں! رہی بات لوگوں کی تو ’’لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری!‘‘

مجھے قمر زمان کائرہ کی وفا یا شاہد خاقان عباسی کی ایفا کا کیا کرنا ہے؟ ندیم افضل چن، فہمیدہ مرزا، فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری اور بابر اعوان جیسے پانچ پیاروں کے نقش قدم میں جب قومی خدمت موجود ہے اور قربانی کا ’’جذبہ‘‘ بھی، تو میں کامیابیوں کے اس سفر پر حسد کی آگ میں کیوں جلوں، رشک بھی تو کیا جاسکتا ہے۔ اب یہ کیا سیاست اور طریقہ ہوا کہ بندہ پیپلزپارٹی میں واپس آکر فیصل صالح حیات کی طرح اپنی پکی سیٹ ہی گنوا لے۔ طریقہ یہی کارگر ہے کہ سیٹ پکی ہے تو نور عالم خان کی طرح پکی ہی رکھنا مقدم ہے۔ بھئی! ان کچے کاموں میں کیا رکھا ہے، جب حکومت میں رہ کر پکی پکائی تازہ روٹی دستیاب ہو تو جیل کی کچی یا جلی روٹی کا انتخاب کرکے رانا ثناءاللہ بننے کے شوق میں کہاں کی دانشمندی ہے ؟

جو نظریہ ضرورت میں خم ہے وہ دم خم کسی اور نظریئے میں کہاں ؟ انسان نے گر ترقی کرنی ہے یا چاہے جانے کے شوق سے لطف اندوز ہونا ہے تو صداقت عامہ ہے کہ پہلے اپنے عیبوں پر پردہ ڈالے یا ڈلوائے۔ اور عیب کو غائب کرنے کیلئے حکومتی جبّہ و دستار سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ وہ الگ بات ہے کوئی عامر سلطان چیمہ کی طرح کوئی حکومتی گنگا نہا تو لے مگر اپنا کھرا پن نہ چھوڑے تو کوئی کوئی وزارتی قلم دان ہاتھ میں کیسے آئے ؟ یہ وہ قلم اور قلم دان ہیں جو اٹھانے نہیں اڑانے پڑتے ہیں۔ ہم نے ایم این اے عامر سلطان کو مبارکباد دی کہ آپ نے پچھلے دنوں حق اور سچ کا ایک عَلم اٹھایا تھا، جہاں رہئے سلامت رہئے، وہ بولے کہ سی ایم سیکرٹیریٹ نے کہہ دیا تھا کہ یہ پتھر بھاری ہے۔ قارئین کرام ہم آپ سے متذکرہ بات اس لئے شیئر نہیں کریں گے کہ وہ معاملہ ایک استاد کم رئیس جامعہ کی بدعنوانیوں اور کہانیوں کا تھا۔ لیکن ایک بات انہوں نے خوب کی کہ آج کرے یا کل لکھا ہو قسمت کا ہو یا ثبوت کا تنگ ضرور کرتا ہے۔ ڈاکٹر شیر افگن نیازی پارلیمانی امور کے حوالے سے فہم و فراست کے بڑے مالک تھے جنہیں ہم قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے ان کے صاحبزادے ایم این اے امجد خان نیازی جو عمرانی و پارلیمانی سیاست میانوالی کے ایک مستحکم ستون ہیں اور ایک تحقیق کے مطابق کھرے بھی، یوں حق کا عَلم اٹھانے کے وہ بھی شوقین ہیں مگر کیا کریں وہ بےچارے بھی عامر سلطان ہی ٹھہرے کوئی نعیم الحق تھوڑے ہیں۔

جس طرح اس ہفتے دوستوں کو شکوہ ہے کہ میں نے خصوصی عدالت اور جنرل پرویز مشرف کی پھانسی کو خصوصی معاملہ سمجھتے ہوئے کچھ سپرد قلم نہیں کیا اسی طرح انہیں پچھلے ہفتے یہ ناراضی تھی، کہ میں نے ڈاکٹر بمقابلہ وکیل پر کچھ نہیں کہا۔ حالانکہ میں نے عرض کرچکا تھا کہ خصوصی جرنیل ہو یا خصوصی عدالت، جو ہو سو ہو، میں کسی نظریے یا آئین کے نہیں حکومت کے لڑ لگنا چاہتا ہوں۔ رہی بات وکلاء اور ڈاکٹروں کی تو ان میں اصل حپقلش وکلاء بمقابلہ سینئر وکلاء اور ڈاکٹرز بمقابلہ سینئر ڈاکٹرز ہے۔ اسی فیصد وکلاء کو تو ججز وکیل سمجھتے ہی نہیں، وکیل وہ ہے جس کی منہ دکھائی اور عدالتی رونمائی کی رسم کی رقم کم و بیش ایک ملین ہو۔ اسی طرح بڑے ڈاکٹرز تو وہ ہیں جو مریض کو مردے کا رنگ و روپ دینے کیلئے بھی سرکاری ہسپتال چھوڑ کر پرائیوٹ ہسپتال جانے کیلئے لاکھوں لیں۔ گویا جونئیر ڈاکٹروں اور وکیلوں کی جلتی اندرونی فرسٹریشن پر تیل چھڑکنے کا فائدہ کیا ؟ اب وفاق اور پنجاب میں تو ڈاکٹروں کی وزارت بھی ڈاکٹروں کے پاس ہے سو یہ اپنی فرسٹریشن کا علاج ان وزیروں مشیروں سے کیوں نہیں کراتے؟ اور وکلاء بھی اٹارنی جنرل کے سامنے اپنی فرسٹریشن کا کیس رکھیں، اور یہ حامد خان جیسے کھرے آدمی کو بھی امجد خان نیازی اور عامر سلطان چیمہ ہی سمجھیں۔ ہم چونکہ خود نعیم ہیں چنانچہ نعیم الحق کے حق ہی کو مانیں گے، کیونکہ ہم بھی اب اس ڈگر پر ہیں کہ حکومت ہی کو پسند کیا جائے لہذا معاملہ ڈاکٹرز وکلاء کا ہو یا مسئلہ پھانسی ہمیں کسی رضا ربانی یا فرحت اللہ بابر کی شائستگی اور نستعلیقی سے کیا لینا دینا۔ میرے لئے جمہوریت کی وہی تعریف مصدقہ ہے جس پر حکومت کے شوخ رنگ ممبران اسمبلی اور سینٹ کی مہر ثبت ہو۔ مانا کہ وفا کی بدولت یوسف رضا گیلانی و راجہ پرویز اشرف اور عباسی صاحب کا قد بڑا اعظم اور معظم ہے اور ایفائے عہد کے سبب کائرہ صاحب اور رانا ثناء اللہ کی توقیر کسی سے کم نہیں۔ ارے، جو غیر پارلیمانی ہوکر بھی پارلیمانی اور ہردلعزیز شخصیات کو نابالغ قراردیں ایسے سٹھیا جانے والوں کے لوہا منوا جانے پر ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں، اور ہم ان کے سنگ ایک تبدیلی اور نئی امنگ کیلئے کھڑے ہونے کیلئے دو سو فیصد تیار ہیں۔

اور کوئی پوچھے بھی یا ہم خود ہی بتلائیں کیا، کہ ہم واوڈا صاحب، مراد سعید، فواد چوہدری، ڈاکٹر اعوان، جام کمال اور عثمان بزدار کی سیاسی و حکومتی کارکردگی سے ’’متاثر‘‘ ہو کر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری اور شعلہ بیانی و خوش الحانی کے آزمودہ فارمولے کے تحت حکومت کو پسند کرنا چاہتے ہیں، ہم سعودیہ سے ملائیشیا تک کو بھی حکومتی عینک سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، متاثرین کیلئے حکومت سے بہتر کوئی اور در ہے؟

تازہ ترین