• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سید محمد علی عابد ۔۔برمنگھم
برطانیہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر یورپ میں 1940 ء سے دفا عی سامان کی پیداوار بہت کم ہو گئی اور گھریلوسامان آرائش وغیرہ کے کارخانے لگنے شروع ہو گئے۔ انڈسٹری کی پیداوار میں اضا فے کے ساتھ کاریگروں کی ضرورت میں اضا فہ ہو تا گیا۔ یورپ میں افریقہ اور ایشیاء سے مزدوروں کو لایا گیا ۔ مزدوروںکی اہمیت اوران کی انڈسٹری کو ضرورت بڑھتی گئی۔ مزدوروں نے اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضا فے کے لئے مالکان پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا، مزدوروں نے مطالبے پورانہ ہونے کی وجہ سے اپنی یو نینزبنانی شروع کر دیں جو مالکان کے ساتھ مزدوروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضا فے کے لئےNogotiate کر تی تھیں ان یونینز کی انڈسٹری کو ضرورت کے مطابق اضا فے مان لئے جا تے تھے اور یہ سلسلہ جا ری رہتا تھا ۔ 1970 ء کی دہائی میں یو نینز کو بے حد اختیارات حاصل ہو گئے اور برطانیہ میں معمولی سی بات پر ہڑتال کا رواج شروع ہو گیا ۔فیکٹری کے مزدوروں کی ہڑتالوں کے سبب ان کے پڑوس میں واقع دوسری فیکٹریوں کے مزدوروں کی بھی Sympathy Strikes ہو جا تی تھی ۔اس پر اکتفا نہیں بلکہ لنکا شائر اور یارک شائر میں فلائنگ اسکواڈ بنا ئے گئے جو ملک بھر میں ہو نے والی ہڑتالوں میں شامل ہو کرمالکان کو متاثر کر تے تھے فیکٹری کا مالک ان لوگوں کے رعب میں آجاتا تھا اور ان کے مطالبات کو ماننے پر مجبور ہو جاتاتھا۔ برطانیہ میں سب سے بڑی اور طاقتور مائینز کی یونین تھی جو کانوں سے کو ئلہ نکا لتے تھے ان کی تنخواہیں اور مراعات ملک کے دوسرے مزدوروں سے بہت زیا دہ ہو تی تھیں ان کا صدر MR. Arther Scargill تھا جو کنک آرتھر کہلاتا تھا بہت مغرور انسان تھا ان یو نینز کی وجہ سے برطانیہ کی اکانومی اس قدر خراب ہو تی تھی کہ وہاں 14,13 % تک انفلیشن ہوگئی بینک کی شرح سود 18%،17% ہو گئی Higher Purchase تقریباََ 20% رہ گئی اور اس کو بھی حاصل کر نے کے لئے خریدار کو کم ازکم 40% قیمت پہلے ادا کرنی پڑتی تھی حکومت کا مورال جیسا آج ہمارے ہاں ہیں ایسا تھا۔ 1979 ء میں تین وزیر اعظم بدلے جم کیلان ،ڈینسس ہیلی ، آخری وزیر اعظم مائیکل فٹ تھے الیکشن ہوئے تو لیبر پارٹی ہار گئی اور ٹوری پارٹی جیت گئی ۔مسزتھیچر وزیر اعظم چن لی گئی اب مسز تھیچر کا مشن ہڑتالوں سے معیشت کو آزاد کروانا تھا ہارکی یونین نے حکومت کے ساتھ بات چیت کر کے اپنی تنخواہ بڑھواتی تھی اسی روایت کے تحت کنگ آرتھر نے مسز تھیچر سے ملاقات کی اور تنخواہ میں دس فیصد اضافے کا مطالبہ کیا یہ مطالبہ کسی بھی صورت پورا نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ د س فیصد اضا فے سے ملک کی پہلے سے ہی تباہ شدہ معیشت مزید تباہ ہو جاتی ۔مسزتھیچر نے اپنی مجبوریاں بتائی لیکن کنگ صاحب نے ایک بات نہ سنی، مسز تھیچر نے تھوڑا ٹائم مانگا اور اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا مسز تھیچر کے وزیر دستکاری نے مشورہ دیا کہ اس بار آرتھر کو جہاں تک ہو سکے کم اضافہ پر راضی کر لیا جائے اور اگلے سال اس سے نمٹیں گے۔ مسز تھیچر نے آٹھ فیصد پر راضی کرلیا ۔آئندہ سال آرتھر آیا اور اس نے دوبارہ دس فیصد کا مطالبہ کیا ۔مسز تھیچر چونکہ اس سے دو ہاتھ کرنا چا ہتی تھیں مسز تھیجر نے کہا ایک فیصد جس کو
سنتے ہی آرتھر غصے سے پاگل ہو گیا اوراس نے کہا What are you talking woman مسز تھیچر نے جواب دیا کہ میرے کمرے سے نکل جائو کیونکہ تمہیں خاتون سے بات کرنے کی تمیز نہیں، کنگ نہ کہا Strike تو مسز تھیچر نے کہا Good Day ہڑتال ہو گئی مسز تھیچر اور ان کی حکومت اس کے لئے تیار تھے انہوں نے پچھلا پورا سال جہاں سے کوئلہ ملا خریدلیا اور کو ئلے سے چلنے والے کارخانے اور ان کے ساتھ آئل اور گیس کے بوائلر لگادئیے تا کہ پیداوار بند نہ ہو، دوسرا کام عدالت کے ذریعے یونینز کے فنڈز منجمد کر وادئیے کیونکہ یہ فنڈز یونیز کے ممبران کے بچوں کی بہتری کے لئے تھے ۔ہڑتال تھوڑا عرصہ چلی اور فیل ہو گئی ۔پاکستان میں یونینز اتنی طاقتور نہیں ہو سکیں، اب بھی اسٹیل ملز ، پی آئی اے ،واپڈا میں یونیزموجود ہیں لیکن وہ اتنی طاقتور نہیں کہ حکومت کو کسی کام پر مجبور کر سکیں لیکن اب پچھلے25 سال سے یہ یونیز وکلاء اور ڈاکٹرز نے بھی بنا لی ہیں حالیہ دنوں میں ان یونیزکے ٹکرائوں سے قوم کا نقصان ہوا وہ کافی تکلیف دہ ہے یہ ہڑتالیں عوام کو بے حد نقصان پہنچاتی ہیں، بے گناہ مریض ڈاکٹروں کی سٹرائکس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جا تے ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں ہوا ۔وکلا ء اور ڈاکٹرز صاحبان پڑھے لکھے معاشرے کے قابل احترام لو گ ہیں انہیں اس طرح کی ہڑتالیں زیب نہیں دیتی کیونکہ جس دن وکلا ء معمولی سی بات پر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہڑتال کر دیتے ہیں یہ اخلاقی طور پر منا سب نہیں کیونکہ عدالتوں میں سائل بڑی دور سے پیش ہو نے کے لئے آتے ہیں لیکن جب ان کو آگے کی تا ریخ دے دی جاتی ہے تو ان کو ذہنی صدمہ ہوتا ہے اور ما لی نقصان الگ یہ فعل قابل احترام وکلاء اپنی ذمہ داریاں سے غفلت برتے ہیں کیونکہ ان کے موکل نے اس وقت کی فیس دے کران کاٹائم خریدا ہوتا ہے ۔اخلاقی طور پر وہ فیس جو اس دن کے لئے لی گئی تھی وہ کر پشن کے دائرہ میں آتی ہے اب وقت آگیا ہے اس لعنت سے چھٹکاراحاصل کیا جائے ۔اب تو وقت یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ کسی وکیل کا کوئی رشتہ دار اللہ کو پیارا ہوجائے تو وکلاء کی ہڑتال ہوجاتی ہے سوچئے جن مقدمہ بازوں کو تکلیف ہوئی وہ مرحوم کے حق میں فاتحہ پڑھیں گے ؟نہیں وہ غصے میں آکر بدعا دیں گے۔پچھلے دنوں سیالکوٹ کے علاقے میں ایک وکیل صاحب کو قتل کر دیا گیا یہ واقعہ صبح ساڑھے دس گیارہ بجے پیش آیا اس قتل کے بارے میں سنتے ہی پنجاب بار کونسل نے ہڑتال کی کال دے دی جس کی وجہ سے عدالتوں میں کام بند ہو گیا جو لو گ اپنے مقدموں کے سلسلے میں عدالتوں میں پہنچے تھے ان کے لئے ہڑتال نہایت تکلیف دہ تھی ۔اس کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں ہڑتال کی کال دی گئی۔پنجاب بار کو نسل کا یہ فرض تھا کہ وہ قتل کے اسباب اور وجوہات کا جائزہ لیتی اگر محسوس کر تی کہ پولیس یا کوئیادارہ قتل کے ذمہ داروں کو پکڑ نہیں رہے یا FIR درج نہیں ہو رہی تو اس صو رت میں وکلا ء کا مطالبہ جائز ہوتا اپنے مطالبات منوانے کے لئے انہیں پولیس کو نوٹس دینا پڑتا اگر آپ اس کیس کا تسلی بخش پیروری نہیں کرتے تو ہم ہڑتال کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور ہڑتال کے نوٹس کے ایک دن بعد ہڑتال کی جائے تا کہ مقدمہ بازوں کو ایک دن پہلے ہی پتہ چل جائے اور عدالتوں میں نہ جا ئے۔بار کونسل کوئی سیاسی پارٹی نہیں انہیں ریگولیٹری تنظیم کہا جا سکتا ہے ان کے الیکشن کم از کم پانچ سال کے بعد ہونے چاہیے اور اس کیلئے بھی کونسل کا صدر ،نائب صدر، سیکرٹری اور خزانچی منتخب ہو اور دیگر عملہ صدر منتخب کرلے موجودہ نظام میں کئی بارکونسلز ہیں جن کی ضرورت نہیں پورے ملک کے معاملات کیلئے صرف ایک بار کونسل ہو نی چاہیے۔
تازہ ترین