
پیدا کیا جو انہیں ان کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوا اور یوں ایک روشن خیال اور انصاف پسند معاشرے نے جنم لیا۔ اس کے بعداسلام کے فروغ اور اسلامی سلطنت قائم ہونے سے خواتین معاشرے کا ایک ایسا کردار بن کر سامنے آئیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے حقوق کا تحفظ کیا بلکہ دوسروں کے حقوق کا بھی تحفظ کرتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی۔
بعض ممالک میں خواتین نے حکمرانوں کا کردار بھی ادا کیا ،اس حوالے سے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا یہ کہنا مبنی برحقیقت ہے کہ خواتین کو نظرانداز کرکے کوئی بھی ملک جدید اور ترقی یافتہ نہیں بن سکتا۔ مذہبی اختلافات سے قطع نظر، آج اور آج سے پہلے کئی یورپی ممالک میں خواتین ملک کی سربراہی اور قیادت کے فرائض انجام دے چکی ہیں اور آج اس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک جہاں انتخابات کا عمل جاری ہے وہاں خاتون سیاستدان قومی سیاست پر مکمل دسترس رکھتی ہیں اور برطانیہ میں بھی ایک خاتون حکمرانی کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اس حوالے سے یہ کہنا بھی مبالغہ آمیز نہیں کہ ملکی ترقی میں خواتین کا کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا مردوں کا۔ ملک کی سماجی، معاشی، صنعتی اور تعلیمی ترقی کے لئے خواتین کے حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظمؒ نے بھی خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کے لئے تمام مراعات کی فراہمی پر زور دیا تھا ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے پوری سیاسی زندگی میں اپنے بھائی کے ساتھ رہتے ہوئے ان کی بھرپور مدد کی اور ہر شعبہ زندگی میں ان سے بھرپور تعاون کیا۔ وہ اس حوالے پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لئے سرگرم عمل رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تمام دوسرے مذہبی فرقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بھی مکمل سرپرستی کی۔ لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ لسانی، علاقائی، سیاسی، مذہبی اور تعصب کی بنیادوں پر خواتین کے حقوق کو پامال نہ کیا جائے بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ اسی میں ملک کی فلاح و کامرانی ہے۔