• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی معیشتوں کی شرحِ نموسُست، مُلکی مہنگائی نے چیخیں نکال دیں

گزشتہ برس عالمی معیشت کی شرحِ نمو 3فی صد رہی، جو عالمی اقتصادی بحران سے نکلنے کے بعد سب سے کم تھی۔ ماہرین نے اس کا سبب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین سمیت مختلف ممالک پر عاید کیے گئے تجارتی محصولات کو قرار دیا۔ واشنگٹن نے بیجنگ کی مختلف مصنوعات پر 5ارب ڈالرز کے ٹیکسز عاید کیے، تو اس کے جواب میں چین نے بھی امریکی اشیاء پر ٹیکسز لگا دیے۔ اگرچہ اس کے سبب مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوا، لیکن سب سے زیادہ اثرات مارکیٹس کے عدم استحکام کی صُورت سامنے آئے۔ 

اس کے برعکس اُبھرتی ہوئی معیشتوں کی شرحِ نمو میں کمی، اضافے میں بدلنے لگی۔ ان ممالک میں تُرکی، ارجنٹائن اور ایران شامل ہیں، جب کہ بھارت، برازیل، میکسیکو، رُوس اور سعودی عرب کی معیشت کی ترقّی کی رفتار سُست رہی۔ 2019ء میں امریکا کے علاوہ تمام بڑی معیشتوں کی شرحِ نمو بڑھنے کی رفتار دھیمی تھی۔ اس عرصے میں امریکا میں روزگار کے مواقع تیزی سے بڑھے اور یہ تک کہا گیا کہ 2002ء کے بعد پہلی مرتبہ امریکا میں بے روزگاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس ضمن میں ٹرمپ کی اقتصادی حکمتِ عملی نے اہم کردار ادا کیا۔

عالمی تجارتی ماحول میں پائی جانے والی بے یقینی اور محصولات میں اُتار چڑھائو نے سرمایہ کاری کو کم زور کیا۔ اس کے باعث کیپیٹل گُڈز کی پیداوار میں بتدریج کمی واقع ہوئی۔ مثال کے طور پر آٹو موبائل انڈسٹری سال بھر سِمٹتی رہی۔ دوسری جانب، یورپ اور چین میں بڑھتی آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات نے بھی اس انڈسٹری کو نقصان پہنچایا۔ یاد رہے، گزشتہ چار برس سے چینی دارالحکومت، بیجنگ کا شمار دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہو رہا ہے۔ 

گزشتہ برس عالمی تجارت میں آٹو موبائل انڈسٹری کا حجم ایک فی صد رہا، جو 2012ء کے بعد سب سے کم ہے کہ جب عالمی اقتصادی بحران جاری تھا۔ مینوفیکچرنگ کے مقابلے میں سروسز کے شعبے میں ترقّی کی شرح برقرار رہی، جس کی وجہ سے ترقّی یافتہ معیشتوں کی لیبر مارکیٹ میں خوش حالی آئی اور اس نے مینوفیکچرنگ کے شعبے کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا۔ 

امریکا اور چین کے مرکزی بینکس نے اپنی مالی اعانت جاری رکھی۔ درحقیقت، یہ دونوں ممالک نہ صرف یہ کہ دنیا کی دو بڑی معیشتیں ہیں، بلکہ عالمی معیشت کی ڈرائیونگ فورس بھی ہیں۔ ترقّی یافتہ معیشتوں کی دھیمی رفتار سے ترقّی کا ایک مقصد اپنے طویل مدّتی اہداف کا حصول بھی تھا، کیوں کہ عالمی اقتصادی بُحران سے نکلنے کے بعد توازن اور متعیّن اہداف کی جانب پیش رفت ضروری تھی۔ واضح رہے ، بڑی معیشتوں کا حجم اس قدر وسیع ہے کہ اُنہیں توازن برقرار رکھنے کے لیے صبر اور دُور رَس اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز، مجموعی عالمی معاشی ماحول میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں کو بھی مدّ ِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔ 

گوکہ خارجہ پالیسی کے محاذ پر ٹرمپ کی اختیار کردہ تدابیر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن اُن کی اقتصادی حکمتِ عملی کو غیر معمولی کام یابی ملی ۔ اندرونِ مُلک پیداواری یونٹس کی بحالی اور اپنی مصنوعات پر انحصار نے امریکی تاجروں اور افرادی قوّت کو اعتماد بخشا۔ اس پالیسی کی وجہ سے نہ صرف امریکی معیشت نے ترقّی کی، بلکہ مُلک سے بے روزگاری کا بھی خاتمہ ہوا۔ دوسری جانب، امریکا میں شیل آئل کی دریافت کے اثرات عالمی منظر نامے پر ظاہر ہونے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ آرامکو کی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد تیل کی رسد معطّل ہوئی، تو کہیں بھی بحرانی کیفیت نہیں دیکھی گئی۔ 

اس موقعے پر ماہرین کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ تیل کی معیشت پر اُن کی اجارہ داری ختم ہو چُکی ہے اور اُن کے تیل کے بغیر بھی دُنیا چل سکتی ہے۔ تیل کی پیداوار میں امریکا کے خود کفیل ہونے کا اندازہ ٹرمپ کے اس بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ہم سعودی عرب کی مدد اِس لیے کریں گے کہ وہ ہمارا حلیف ہے، جب کہ تیل میں تو ہم خود کفیل ہیں۔ ‘‘یاد رہے ، تنہا امریکا ساری دُنیا کے برابر تیل استعمال کرتا ہے اور اب اپنی ضرورت کا تیل پیدا کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر چُکا ہے۔

صارفین کی عالمی منڈی کے نصف حصّے پر کنٹرول کے باوجود چینی معیشت کی رفتار سُست رہی۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اب وہ مقامی منڈی پر توجّہ دے رہا ہے۔ چین کی آبادی ایک ارب 40کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور صرف یہی منڈی اُس کی تیار کردہ مصنوعات کے لیے کافی ہے، لیکن اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے، بیرونِ مُلک اثر و رسوخ کے لیے اُسے برآمدات اور مقامی منڈی میں توازن قائم رکھنا ہو گا۔ چوں کہ چین اس مرحلے سے گزر رہا ہے، لہٰذا اُس کی شرحِ نمو سُست رہی۔ اگر یورپ کی بات کی جائے، تو بریگزٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے یقینی سے یورپی مُمالک کی معیشت کی رفتار دھیمی رہی۔ 

البتہ دسمبر کے انتخابات میں بورس جانسن کی کام یابی کے بعد صُورتِ حال میں تبدیلی کے امکانات پیدا ہوئے۔ پھر امریکا اور چین کی تجارتی جنگ نے بھی یورپی معیشت پر منفی اثرات مرتّب کیے۔ امریکا کے بعد یورپ اور برطانیہ کے چین سے گہرے تجارتی روابط ہیں۔ ٹیرف عاید کرنے کے معاملات، تلخ بیانات اور اسٹاک مارکیٹس کے بیٹھنے کے سبب یورپ کو مشکلات کا سامنا رہا۔ اُسے ہر ماہ ہی کوئی نہ کوئی سمجھوتا کرنا پڑا۔ 

ایک موقعے پر تو فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکرون نے تنگ آ کر یورپی یونین کو امریکا پر اپنا معاشی انحصار کم کرنے اور اقتصادی پالیسیز میں زیادہ سے زیادہ خود مختاری حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ گزشتہ برس اُبھرتی معیشتوں کی سُست رفتاری کا ایک سبب امریکا، چین تجارتی جنگ کے منفی اثرات تھے، تو دوسرا سبب، چین کی طاقت وَر معیشت کا سُست رفتار ہونا تھا۔ 

قبل ازیں، چین کی برق رفتار ترقّی نے اپنے گرد و پیش میں واقع سنگاپور، ہانگ کانگ، تائیوان، ویت نام اور جنوبی کوریا جیسے مُمالک کی معیشت کو مہمیز دی۔ گزشتہ دو برس میں، جب چین کی شرحِ نمو 7.5فی صد سے کم ہو کر 6.5فی صد ہوئی، اُبھرتی معیشتوں کی ترقّی کی رفتار بھی اسی تناسب سے کم ہوئی اور دنیا بھر کی معیشت پر بھی اس کے اثرات مرتّب ہوئے۔ تاہم، رواں برس معاشی ماحول میں بہتری کی توقّع کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب، بعض اندرونی فیصلوں کی وجہ سے بھارت، برازیل، رُوس، جنوبی افریقا اور میکسیکو میں بھی شرحِ نمو سُست رہی۔ کم ترقّی یافتہ مُمالک میں اُن کے مخصوص داخلی حالات کی وجہ سے مجموعی طور پر معیشت کی صُورتِ حال ملی جُلی رہی۔ 

البتہ ویت نام اور بنگلا دیش کی ترقّی کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ مالیاتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق، بنگلا دیش نے 8.3فی صد کی شرح سے ترقّی کی۔ ماہرین نے پیش گوئی کی کہ رواں برس یہ رفتار مزید تیز ہو جائے گی، جس سے بنگلا دیش کے اُبھرتی معیشتوں میں شامل ہونے کی اُمید ہے۔ اسی طرح، ویت نام کی برآمدات میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھا گیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ صدی میں یہ دونوں تباہ حال اور غریب مُمالک میں سرِ فہرست تھے۔

پاکستان کی بات کی جائے، تو سرکاری اعداد و شمار کی رُو سے معیشت بہتری کی جانب گام زن رہی۔ آئی ایم ایف سے رجوع کے چند ماہ بعد ہی عالمی مالیاتی ادارے اس کی تعریف کرنے لگے، جب کہ حکومت کی معاشی ٹیم اور گورنر اسٹیٹ بینک نے بھی حوصلہ افزا پیش گوئیاں کیں۔ یاد رہے، جب وفاقی بجٹ پیش کیا گیا، تو جاری خسارہ اربوں ڈالرز میں بتایا گیا اور معیشت کے دیوالیہ ہونے کا بھی شدّ ومد سے ذکر ہوا، تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق سال کے آخر تک وہ خسارہ، منافعے میں تبدیل ہوگیا۔ معاشی ماہرین جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت سخت ہوتی ہیں، خاص طور پر اُس کی جانب سے سبسڈیز کے خاتمے اور نت نئے ٹیکسز کے بے رحمی سے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ 

اس کے ساتھ ہی اندرونِ مُلک ریونیو کی مَد میں غیر معمولی اہداف دیئے جاتے ہیں، جنہیں ٹیکسز کی بھرمار ہی سے پورا کیا جاسکتا ہے اور گزشتہ برس ایسا ہی کچھ ہوا۔نئے مشیرِ خزانہ اور ایف بی آر کے چیئرمین نے آئی ایم ایف کے پروگرام پر مِن وعَن عمل کیا، جسے عالمی مالیاتی ادارے نے بھی سراہا، مگر حکومتی ٹیم نے اہداف کے حصول پر تو نظر رکھی، لیکن زمینی حقائق کی پروا نہیں کی۔ ہمارے جیسے مُلک میں غربت کی شرح اس قدر بلند ہے کہ فوری مالیاتی سختی اور سبسڈیز کا خاتمہ عوام کو بھوکوں مارنے کے مترادف ہے۔ اصلاحات کے ایجنڈے میں مگن حکومتی معاشی مینجرز نے اتنی موٹی اور واضح بات پر کوئی توجّہ نہیں دی، جس کا نتیجہ عوام منہگائی کی صُورت بھگتتے رہے۔ 

ایک موقعے پر ٹماٹروں کی قیمت 400روپے فی کلو تک جا پہنچی، جب کہ روز مرّہ استعمال کی اشیاء اور سبزیاں بھی دُگنی قیمتوں پر فروخت ہوتی رہیں۔ مُلک میں شور مچا رہا کہ غریب تو غریب، متوسّط طبقے کے لیے بھی تن خواہوں میں گھر چلانا ممکن نہیں رہا۔ تاہم، حکومتی معاشی ٹیم کا اصرار تھا کہ اُن کے اقدامات کی بدولت معاشی صُورتِ حال میں بہتری آئی۔ اس ضمن میں وہ موڈیز کی مثبت ریٹنگ کا ذکر کرتے رہے، جس نے معیشت کے ایک شعبے کو عدم استحکام سے نکال کر بہتری میں ڈالا۔نیز، اسٹاک ایکس چینج کی تیزی کا بھی چرچا رہا اور بڑھتے انڈیکس کو سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مظہر قرار دیا گیا۔ تاہم، سچ یہی ہے کہ اس طرح کی ترقّی سے عام آدمی مستفید نہ ہو سکا۔ عوام کی قوّتِ خرید جواب دے گئی اور وہ سال بھر فریادیں ہی کرتے رہے۔

عوامی چیخ وپکار کے جواب میں وزیرِ اعظم اور اُن کی معاشی ٹیم کی جانب سے’’ بس تھوڑا سا صبر‘‘ کا مشورہ دیا جاتا رہا اور ساتھ ہی وہ ٹیکس نہ ملنے کا گلہ بھی کرتے رہے۔تاہم، منہگائی کے ستائے عوام یہ پوچھتے ہی رہ گئے کہ’’ ہمارے کپتان! آخر کتنا صبر…؟ اب تو گھر میں آٹا بھی بوتلوں میں رکھنے کی نوبت آگئی!!‘‘اُدھر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقّیاتی بینک کی رواں مالی سال اور آئندہ دو سالوں کے لیے اقتصادی پیش گوئیاں مایوس کُن رہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق، رواں سال ترقّی کی رفتار 2.4 رہے گی (ابھی چھے ماہ باقی ہیں)،جب کہ آئندہ سال بھی 2.5 سے آگے نہیں جائے گی۔ 2022ء یعنی اس حکومت کی ٹرم پورا ہونے تک تین فی صد سے نیچے ہی رہے گی،جب کہ منہگائی کی شرح 13 فی صد سے زیاہ ہوجائے گی۔

افراطِ زر بھی 14 فی صد بتایا جاتا ہے، جب کہ بے روزگاری بھی 13 یا اس سے بھی زیادہ ہوگی۔ اقتصادی ماہرین بجا طور پر سوال کرتے ہیں کہ اس صُورتِ حال میں مالیاتی ادارے اگر شاباش بھی دے رہے ہیں، تو اس کا کسے فائدہ؟ کیوں کہ عوام کو تو کسی قسم کا ریلیف نصیب نہیں ہوسکا، اُن کی رسیاں تو مزید کَس دی گئیں۔ایشیائی ترقّیاتی بینک کے تجزیے کے مطابق، علاقے کے تمام مُمالک میں ہماری شرحِ ترقّی سب سے کم رہے گی۔یعنی افغانستان اور نیپال سے بھی کم۔ 

اگر یہ معاشی صُورتِ حال بھی الارمنگ نہیں، تو پھر کیا بات چونکا دینے والی ہوسکتی ہے؟ مُلکی قرضوں کا معاملہ بھی میڈیا اور ایوانوں میں زیرِ بحث رہا۔ عمران خان اور اُن کی جماعت کے سرکردہ رہنما ماضی میں قرضوں کے سخت ناقد رہے ہیں، بلکہ ایک موقعے پر تو عمران خان اس طرح کی صُورتِ حال میں خود کشُی تک کو ترجیح دینے کی بات کر چُکے ہیں، تاہم پی ٹی آئی کی حکومت میں گزشتہ برس بھی مُلک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی رہا۔ 29 ارب ڈالرز کے قرضے بڑھ کر 41 ارب ڈالرز تک جا پہنچے۔واضح رہے،15 ارب ڈالرز کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تین، تین ارب ڈالرز تو سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کے ہیں، جب کہ چین کا حصّہ ابھی بھی مخفی ہے۔

نیز،بڑے منصوبے شروع کرنا تو دُور کی بات، حکومتی منشور کے پچاس لاکھ مکانات اور ایک کروڑ نوکریاں بھی خواب ہی رہے۔ گو کہ وزیرِ اعظم یقین دِلاتے رہے کہ معیشت مستحکم ہونے کے بعد وعدوں کی تکمیل کی طرف آئیں گے، لیکن ابھی تک تو وہ گزشتہ حکومت ہی کے منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، بیرونی سرمایہ کاری کی بہت سی خوش خبریاں گردش میں رہیں، لیکن ٹھوس منصوبے نظر نہیں آئے، جن کے بغیر روزگار بڑھے گا اور نہ ہی برآمدات۔ ماہرین کے مطابق، جہاں اقتصادی سمت درست کرنا ضروری ہے، وہیں کچھ اندرونی اور بیرونی اقدامات بھی لازمی ہیں۔ 

اندرونِ مُلک سیاسی مفاہمت ضروری ہے کہ اس کے بغیر سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ممکن نہیں، تاہم اس ضمن میں سالِ گزشتہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، اُلٹا سیاسی انتشار میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا۔پھر یہ کہ خارجہ پالیسی میں بھی ایسے اقدامات اٹھانے ضروری ہیں، جن سے اردگرد کے ماحول میں تناؤ کم ہو ۔اس حوالے سے کرتار پور راہ داری اور افغان امن مذاکرات میں مدد کے ذریعے علاقائی کشیدگی میں کمی کی کوششیں تو ہوئیں، مگر ان کے بھی کچھ خاص حوصلہ افزا نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ اس ساری صُورتِ حال میں حوصلہ افزا بات یہ رہی کہ حکومتی اقتصادی ٹیم ہم آہنگی سے کام کرتی رہی اور اعلیٰ ترین سطح پر بھی عوام کو ریلف دئیے جانے کی باتیں ہوتی رہیں۔

تازہ ترین