• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں میرے قارئین کو نیا سال مبارک! نئے سال کی یہ خوشنما تبدیلی ہم سب کو اِس جائزے کا موقع دیتی ہے کہ پچھلے برس ہم سے کیا کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں اور اِس نئے سال میں کوتاہیوں سے بچتے ہوئے ہم نے کون کونسی کامیابیاں حاصل کرنا ہیں۔

اِس حوالے سے نیا سال نئی امیدوں، نئی امنگوں اور نئی روشنیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔

اِس کے بالمقابل بہت سے احباب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ نئے سال میں کونسا نیا پن ہے؟ یہ تو ہماری حکومتی تبدیلی کے نعرے جیسی ہی سراب نما تبدیلی ہے جس میں سوائے ایک ہندسہ بدلنے کے کچھ بھی نہیں بدلتا۔

بظاہر وزن اس دلیل میں بھی ہے۔ اگر ہم اپنی دنیا پر غور کریں تو پوری کی پوری کائنات ایک اصول یا قانونِ فطرت کی مطابقت میں چل رہی ہے۔ انسانی شعور بڑھنے کے ساتھ جس طرح تمدنی و تہذیبی ترقی ہوئی ہے اُسی طرح اِس کا تاریخی ریکارڈ بھی بہتری کی جانب گامزن ہے۔

انسانی تاریخ کا اگر باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو صدیوں پر محیط سفر میں انسانی جد وجہد کے ثمرات ہمیں مجبور کر دیتے ہیں کہ ہم انسانی عظمت پر ایمان لاتے ہوئے اس کے سامنے سر نگوں یا سجدہ ریز ہو جائیں ۔

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام، مگر آپ جتنا پیچھے جائیں گے اتنی ہی تاریکی بڑھتی چلی جائے گی۔ وہ ادوار بھی آپ کے سامنے آئیں گے جب انسانوں کو غلام اور لونڈیاں بنا کر اُن کی خرید وفرخت کرنے والوں کو ذرا بھی شرمندگی نہ ہوتی تھی بلکہ وہ اِس انسانی تجارت کو سماجی ضرورت قرار دیتے ہوئے بدترین درجہ بندی جیسی تذلیل کی تحسین فرما رہے ہوتے تھے۔

اس سے بھی پیچھے چلے جائیں، آج سے پانچ یا چھ ہزار سال پیچھے دیکھیں تو سوائے تاریکی کے کچھ دکھائی یا سجھائی نہیں دے گا حالانکہ تھا وہ بھی انسانی سماج ہی۔

درویش کی تمنا ہے کہ اگر قدرت موقع فراہم کرے تو اپنی ’’آئیڈیل سوسائٹی‘‘ پر ایک پوری کتاب تحریر کرے کیونکہ آج تک اتنی زبردست شعوری بیداری اور تہذیبی ترقی کے باوجود ہم جس نوع کا سماج تعمیر کر پائے ہیں اُسے آئیڈیل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بلاشبہ آج کا ترقی یافتہ مہذب مغربی سماج ہم سے صدیوں آگے ہے مگر سر برٹرینڈرسل سے لے کر موجودہ دانش تک کوئی بھی اُسے انسانیت کی معراج یا آئیڈیل سماج قرار نہیں دے پایا۔

رہ گئی ہماری حالت بالخصوص ہمارا مسلم معاشرہ، سچائی تو یہی ہے کہ ہم ہنوز اُن کے قدموں کو چھونے سے بھی قاصر ہیں۔ ہم تو آج کے دن تک یہ تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں کہ مردو زن دونوں انسانی لحاظ سے ایک رتبے یا مساوی حقوق کے حامل انسان ہیں۔

ہمارے اکثر بڑے یہ لکھتے اور سمجھاتے رہے کہ انسانی سماج کو جس طرح بار برداری کے لیے گھوڑوں اور گدھوں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح طبقاتی تقسیم یا لونڈیوں اور غلاموں کی بھی ضرورت ہے۔درویش کی نظر میں ہمارے سماج کو گڈ گورننس سے بڑھ کر، اچھی دانش کی ضرورت ہے۔ ہمارا دانشور طبقہ قوم میں افکارِ تازہ کی آبیاری کیا کرے گا؟

شعلہ نم خوردہ سے نیا شرارہ کیسے پھوٹے گا جبکہ اُس کی اپنی قدامت پسندانہ سوچوں پر مبنی زاویے بانجھ ہوں گے۔ بلاشبہ اچھی حکمرانی ہماری شدید ضرورت ہے ورنہ تبدیلی کے نام پر 70کی دہائی میں جو ڈگڈگی بجائی تھی اُس کی ریہرسل کبھی بند نہ ہوگی لیکن مثبت تبدیلی گراس روٹ لیول پر فکری آزادی اور شعوری تطہیر کے بغیر ناممکن ہے۔

جب تک آپ نفرت انگیز پروپیگنڈہ اپنے نونہالوں کے کچے اذہان میں انڈیلتے رہیں گے شاہ دولے کے چوہے تو پیدا ہوں گے کسی حقیقی اور جینوئن تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آج کے ماڈرن انڈیا پر آپ شدید تنقید کریں، جتنا چاہے منفی پروپیگنڈا کر لیں، اس کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ شعوری طور پر آج کا بھارتی سماج ہم سے کہیں آگے ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر ہمارے اور اُن کے سماج میں کوئی فرق نہیں،

دونوں میں ایک جیسی منافرتیں اور ایک جیسے تعصبات ہیں اور اپنی اصل میں دونوں دو نہیں بلکہ ایک ہی قومیتی سماج کے حامل ہیں لیکن اُن کے سیکولر آئین اور جمہوری تسلسل نے وہاں اس شعور یا لبرل سوچ کو اچھی خاصی طاقت بخشی ہے کہ اقلیتوں کے بھی وہی حقوق ہونے چاہیں جو اکثریت کے ہیں۔

درویش کی ذاتی رائے میں مودی جی یا اُن کی بی جے پی نے شہریت کے حوالے سے حالیہ قانون سازی میں جو فیصلہ کیا ہے وہ بداحتیاطی پر مبنی ضرور ہے، زیادتی پر نہیں۔ اس کے باوجود دیگر کمیونل فرقوں بالخصوص لبرل ہندوؤں نے جس طرح مسلم کمیونٹی کے لیے آواز اٹھائی ہے وطنِ عزیز پاکستان میں کیا ہم اقلیتوں کے لیے اس نوع کی کسی آواز کا تصور بھی کر سکتے ہیں؟

بہر حال نئے سال کی خوشیاں تبدیلی کی ان امیدوں کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں کہ ہم نہ صرف انفرادی طور پر اپنی زندگیوں میں بہتری لائیں گے بلکہ اپنے اردگرد پھیلے اپنے پورے سماج کو بہتر بنانے کے لیے نئے عزم کے ساتھ جدوجہد کریں گے تاکہ ہماری سوسائٹی میں جبر کی جگہ برداشت، ظلم کی جگہ عدل اور نفرت کی جگہ محبت لے سکے۔

ہماری جنگ کسی فرد، گروہ یا مخصوص فرقے کے خلاف نہیں بلکہ جہالت، غربت، بیماری اور ظلم و جبر کے خلاف ہوگی۔ ہم ہر مظلوم اور دکھی کا سہارا بن کر کھڑے ہونگے اور 2020کو شعوری سر بلندی، فکری آزادی، ترقی، خوشحالی، انسان دوستی اور حقیقی تبدیلی و خوشی کا سال بنائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین