• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ نے الیکشن کمیشن سے یہ امیدیں باندھ رکھی ہیں کہ وہ ایک ایسی چھاننی کا کام کرے گا جس سے کرپٹ، بددیانت ، ٹیکس چور اورجعلی ڈگری والوں کو آئندہ الیکشن لڑنے سے روک دیا جائے گا تو شاید آپ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے۔ فخرو بھائی کی دیانت اور اُن کا مرتبہ اپنی جگہ مگر حال ہی میں الیکشن کمیشن کے کام کو قریب سے دیکھا تواس بات کا احساس ہوا کہ اس طرح کے قومی اداروں میں جہاں ایماندار افراد کی تعیناتی کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں اُن کے لیے جرا ¿ت مند ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی ڈر یا خوف کی وجہ سے ملک و قوم کی بہتری کے حق میں فیصلے نہیں کر سکتے یا اُن پر عملدرآمد سے ہچکچاتے ہیں تو پھر ایسی ایمانداری اور ریپوٹیشن کا کسی نے اچار ڈالنا ہے۔ پاکستان کا المیہ دیکھیں کہ ہمارے برائے نام آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن اور اس کے چئیرمین محترم فخرو بھائی جو کراچی میں حلقہ بندی کے کئے گئے اپنے فیصلے سے پہلے ہی پھر گئے اب یہ فیصلہ کرنے سے بھی گریزاں ہیں کہ جن جن ممبران پارلیمنٹ اورامیدواروں نے 2008 کے الیکشن میں جعلی ڈگریاں جمع کروائیں، انہیں آئندہ الیکشن لڑنے سے روک دیا جائے۔ بجائے اس کے کہ لوگوں کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے تمام جعلی ڈگری والوں اور ایسے ممبران پارلیمنٹ جو ٹیکس چور ہیں یا اپنی ڈگریوں کی تصدیق کرنے سے گریزاں ہیں،کو الیکشن لڑنے سے روکنے کا اعلان کرتے لگ ایسا رہا ہے کہ فخرو بھائی اور الیکشن کمیشن نے تو سیاست دانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ یہ کیسے صاف شفاف الیکشن ہیں کہ جعل سازی اور فراڈ کرنے والوں کو پارلیمنٹ ممبر بن کر اس ملک کے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے لینے کی اجازت دی جا رہی ہے۔جن لوگوں نے 2008کے انتخابات میں اپنے سیاسی مفاد کی خاطر جعلی ڈگری حاصل کی، وہ گریجویشن کی شرط کے خاتمہ سے کیسے قابل احترام بن سکتے ہیں۔ امریکا ، برطانیہ یا کسی دوسرے ملک میں کیا کوئی ایسا مذاق ہو سکتا ہے جس کی اجازت الیکشن کمیشن اور فخرو بھائی نجانے کس مصلحت یا خوف کی وجہ سے دے رہے ہیں۔الیکشن کمیشن کے ان بزرگوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ اس قوم کے لیے کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو کم از کم بُرا تو نہ کریں۔ ان تمام بزرگوں کی نوکریاں بھی پکی ہیںاور اُن کو تواب کوئی نکال بھی نہیں سکتا ۔یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ اُن 50-60 ممبران اسمبلی (جن کی ڈگریوں کو باقاعدہ ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے جعلی قرار دیا) کی اکثریت آج بھی اسمبلیوں میں بیٹھی ہے اور الیکشن کمیشن اپنی تمام تر آزادی اور خودمختاری کے باوجود ایسے ممبران کو اسمبلیوں سے باہر کرنے میں کوئی دلچسبی نہیں رکھتا۔ بلکہ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایسے جعلی ڈگری والوں کے آئندہ الیکشن لڑنے پر بھی ہمارے الیکشن کمیشن کے بزرگوں کو کوئی اعتراض نہیں۔الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق کمیشن ممبران میں سے ایک ممبر تو ان جعلی ڈگری والوں اور ایسے اراکین پارلیمنٹ جو اپنی ڈگریوں کی تصدیق کرانے سے گریزاں ہیں، کو آئندہ الیکشن لڑنے سے روکنے کے خواہاں ہیں مگر اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ بھئی پنڈورا باکس تو ٹیکس چوروں کو بھی الیکش سے دور کرنے سے کھلے گا۔ پنڈورا باکس تو آئین کے آرٹیکل62-63 سے نفاذ اور چوروں اچکوں، لٹیروں اور جعلسازوں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روکنے پر بھی کھلے گا۔ اگر پنڈوراباکس کے کھلنے سے کوئی ڈرتا ہے تو پھر یہ اہم ذمہ داری لینے کی ضرورت کیا تھی۔ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ گھر بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے۔ کم از کم جعل سازوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے جیسے گناہ سے تو بچ جاتے ۔
یہاں تو نیب کے بزرگ چئیرمین فصیح بخاری بھی خوب نمک حلالی میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنے آپ کو ایک ایماندار اور اصول پسند شخص گردانے والے بخاری صاحب نے جہاں این آر او کے علاوہ موجودہ دور کی اربوں کی کرپشن کے مختلف کیسوںمیں حکمرانوں کا خوب ساتھ دیا، وہیں اپنے اُس محسن جس کی وجہ سے انہیں چئیرمین نیب بننے کا موقع ملا، کی بھی خوب خدمت کر رہے ہیں۔ ابھی دو روز قبل ہی راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت نے نیب کی فرینڈلی پروسیکیوشن کی وجہ سے بخاری صاحب کے انتہائی طاقت ور ماسٹر اور اُس کے بیٹے کوزمینوں کے ایک فراڈ کیس میں بری کر دیا۔ یہ کام ابھی ہونا بہت ضروری تھا کیوں کہ کیا معلوم کل کس کی حکومت آ جائے۔ اندر خانے ملاپ چاہے جیسا ہو مگر حقیقت تو یہ مانی جائے گی کہ احتساب عدالت نے با عزّت بری کیا۔باقی اعتراض کرنے والے جو مرضی آئے باتیں کرتے ہیں،اس سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔بے چارا پاکستان اور بے چارے پاکستانی کس پر اعتبار کریں جب اپنے ”ایمانداروں“ کا یہ حال ہو۔ امید تو یہ بھی تھی کہ الیکشن سے کچھ بدلے گا مگر اب سب کچھ مشکوک ہو گیا۔آخر ہمارا گناہ تو بتا دو۔
تازہ ترین