• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف سے ملاقاتوں میں بزنس کمیونٹی نے بزنس مینوں کے خلاف نیب کے طریقہ تفتیش پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیب کے رویے سے بزنس کمیونٹی میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے جس سے ملک میں سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔

میں نے چیئرمین نیب کو 4اکتوبر کو فیڈریشن ہائوس کراچی کے دورے پر بزنس کمیونٹی کے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ فیڈریشن، نیب کی ملک سے کرپشن ختم کرنے کی کاوشوں کی قدر کرتی ہے لیکن حال ہی میں بے شمار فلور ملز مالکان کو گندم خریدنے پر نیب کے نوٹسز سے بزنس کمیونٹی میں خوف پایا جاتا تھا۔

چیئرمین نیب نے بزنس کمیونٹی کو یقین دلایا تھا کہ بینکوں کے نادہندگان اور دیگر معاملات اسٹیٹ بینک اور کسٹم ڈیوٹی اور انکم و سیلز ٹیکس کے کیسز ایف بی آر کو منتقل کرنے کی ہدایت دیدی گئی ہے لیکن نیب نجی ہائوسنگ سوسائٹی کے مالکان کیخلاف کارروائیاں جاری رکھے گا کیونکہ وہ لوگوں کی جمع پونجی لوٹ کر بیرونِ ملک بھاگ گئے ہیں۔

حکومت نے 27دسمبر کو نیب ترمیمی آرڈیننس 2019ء جاری کیا جسکا اطلاق فوری طور پر ہوگا جس کے مطابق ٹیکس سے متعلقہ تمام انکوائریز، انویسٹی گیشنز اور زیر التوا مقدمات متعلقہ حکام، اداروں یا عدالتوں کو منتقل کر دیئے جائینگے۔ نیب تاجروں کیخلاف کارروائی نہیں کر سکے گا۔

سرکاری ملازم یا عوامی عہدیدار کیخلاف 50کروڑ سے زائد کرپشن پر اسکروٹنی کمیٹی کی منظوری کے بعد کارروائی ہو سکے گی۔ سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بیجا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی۔ سرکاری ملازم یا عوامی عہدیدار کیخلاف ثابت کرنا پڑیگا کہ اس نے اپنے فیصلے سے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا ہے اور اسکے اثاثے معلوم ذرائع آمدنی سے زیادہ ہیں۔ 3ماہ میں نیب کی تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا۔

سرکاری افسران کے کیسز کا جائزہ لینے کیلئے ایک اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی جسکا کنوینر چیئرمین نیب ہوگا جبکہ دیگر اراکین میں سیکریٹری کابینہ، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، چیئرمین ایس ای سی پی، چیئرمین ایف بی آر، وزارتِ قانون اور متعلقہ وزارت کے 21گریڈ کے افسران شامل ہیں۔

آرڈیننس کے مطابق اسکروٹنی کمیٹی کی منظوری کے بغیر نیب کسی سرکاری افسر کو گرفتار کرکے تفتیش نہیں کر سکے گی جبکہ ریمانڈ کی مدت 90روز سے کم کرکے 14دن کر دی گئی ہے۔ آرڈیننس سرکاری ملازمین اور سروس میں رہنے والے تمام افراد پر لاگو ہوگا تاہم اسکا اطلاق وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹیکس، لیویز یا محصولات کے معاملات پر نہیں ہوگا۔

آرڈیننس کی رو سے تمام زیر التوا انکوائریز اور انویسٹی گیشنز ٹیکس کے متعلقہ حکام یا اداروں جبکہ زیر التوا مقدمات احتساب عدالتوں سے ٹیکس، لیویز اور محصولات کی متعلقہ (فوجداری) عدالتوں کو منتقل کر دیئے جائینگے۔ آرڈیننس کے مطابق کوئی بھی ایسی شکایت جس پر انکوائری مکمل ہو چکی ہو یا بند کر دی گئی ہو، پر دوبارہ تحقیقات نہیں ہو گی۔

نیب آرڈیننس کے تحت نیب کا کوئی افسر ریفرنس دائر ہونے تک انکوائری یا انوسٹی گیشن کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیگا اور سرکاری ملازمین کی جائیداد کو عدالتی حکم کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا۔ حکومت کو یہ آرڈیننس بل کی صورت میں 120دن یا توسیع کے بعد 240دن کے اندر سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کروانا ہوگا بصورت دیگر 8ماہ بعد یہ بل غیر موثر ہو جائے گا جو سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کیلئے ایک چیلنج نظر آتا ہے۔

میری رائے میں نیب ترمیمی آرڈیننس سے بزنس کمیونٹی اور بیورو کریسی میں اعتماد کی فضا قائم ہوگی جسکے ملکی معیشت پر یقیناً مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ میں نے کبھی بھی کرپٹ بزنس مینوں کو سپورٹ نہیں کیا ہمیشہ حقیقی بزنس مینوں کی وکالت کی ہے جو ملک میں صنعتیں لگا کر لوگوں کو ملازمتیں، ایکسپورٹ سے ملک کو زرمبادلہ اور قومی خزانے کو اربوں روپے ٹیکس دیتے ہیں جس پر وہ یقیناً عزت و احترام کے مستحق ہیں۔

ان میں کچھ کاروباری حضرات حادثاتی طور پر بینکوں کے نادہندہ ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار ہتھکڑیاں لگے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ان کی تصاویر بھی اخبارات میں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ایک المیہ ہے۔

پوری دنیا میں اگر آپ بینک یا مارکیٹ کے نادہندہ ہو جاتے ہیں تو بینک کرپسی (دیوالیہ) قوانین کے تحت آپ اپنی کمپنی کے دیوالیہ ہونے پر بینک کرپسی ڈکلیئر کر سکتے ہیں اور کورٹ سے مقرر کیا جانے والا لیکویڈیٹر عزت کے ساتھ آپ کے اثاثے قرض دہندگان میں تقسیم کرتا ہے اور آپ معاشرے میں عزت دار شہری کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں

مگر افسوس کہ پاکستان میں اب تک بینک کرپسی قانون نافذ العمل نہیں جس کی وجہ سے نادہندہ ہونے کی صورت میں بزنس مینوں کی عزت نفس شدید مجروح ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پاکستان میں بینک کرپسی کے قانون کا جلد از جلد نفاذ کرے۔

تازہ ترین