• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوزف اسٹالن نے کہا تھا جب سرمایہ داروں کو پھانسی دینے کا وقت آئے گا تو وہ پھانسی کے پھندے بیچ کر منافع کمانے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ بدتر واقعات بھی کسی نہ کسی کیلئے بہترین مواقع لے کر وارد ہوتے ہیں۔ 

اپنوں کی جدائی کے غم میں نڈھال لوگوں کو کیا معلوم کہ لوگ مرنا چھوڑ دیں تو تجہیز و تکفین کے شعبے سے وابستہ بیشمار لوگ فاقوں پر مجبور ہو جائیں، پھول بیچنے والوں سے کفن فروخت کرنے والوں تک سب بیروزگار ہو جائیں اور گورکن کے گھر کا تو چولہا ہی بجھ جائے۔ 

اسی طرح جنگ بھی کتنی ہی بھیانک کیوں نہ ہو، اس کے تباہ کن اثرات کے دوران کتنی ہی کمپنیاں منافع کما رہی ہوتی ہیں اور ان کا کاروبار تب ہی پھلتا پھولتا ہے جب جنگ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ امریکی مصنف، جارج اورویل نے کہا تھا، کسی غیر ملک سے جنگ تب ہی ہوتی ہے جب مراعات یافتہ طبقے کو یقین ہوتا ہے کہ ا س سے منافع کمایا جا سکتا ہے۔ 

اب تو یہ بات کھلا راز ہے کہ اسلحہ سازی کی صنعت سے منسلک لابی اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے متحارب ممالک کو اشتعال دلاتی اور جنگ پر اُکساتی ہے۔ 

جب جنگ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں تو ہم جیسے غریب ممالک کی بھی سنی جاتی ہے اور جغرافیائی اہمیت میں اضافہ ہو جانے سے بھائو تائو کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ 

جیسے نائن الیون کے بعد امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو ڈالروں کی برسات سے ہم بھی مستفید ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی ڈورن کے ذریعے مارے جانے کے بعد ایک بار پھر یہ بحث چل نکلی ہے کہ پاکستان کو اس کشمکش میں کیا کرنا چاہئے۔ 

یہ سوال سن کر ایک بار تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے کیونکہ مجبوریوں اور لاچاریوں کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنی مرضی سے کسی عالمی کانفرنس میں شرکت کے متحمل نہیں ہو سکتے تو امریکہ بہادر کے خلاف کھڑا ہونے کی انہونی کیسے ممکن ہے۔ 

پتلی گلی سے نکل کر عزت بچانے کا ایک راستہ تو یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان دونوں ممالک میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کر دیں مگرباربار اس موقف کا اعادہ کیا جا رہا ہے کہ ہم کسی ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ 

اس سے ایک نئی بحث یہ چھڑ گئی ہے کہ کیا امریکہ کو اس معاملے سے نمٹنے کیلئے ہماری سرزمین درکار بھی ہے؟ اس وقت ایران کے چاروں طرف امریکہ کے فوجی اڈےموجود ہیں۔ 

افغانستان میں 14ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ قطر میں نہ صرف امریکہ کے فوجی اڈے ہیں بلکہ 13ہزار فوجی موجود ہیں۔ اسی طرح کویت میں 13ہزار جبکہ بحرین میں 7ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ 

ایران نے اسی تناظر میں دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ نے اس پر بمباری کی تو جوابی کارروائی کے طور پر اسرائیل اور متحدہ عرب امارات پر حملہ کیا جائے گا۔ 

اسی طرح عمان، اردن، شام، سعودی عرب اور عراق میں بھی امریکی فوجی دستے موجود ہیں۔ آبنائے ہرمز کے قریب امریکی بحری بیڑا موجود ہے۔ جب امریکہ نے ایران کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے تو اسے پاکستان کی زمینی حدود کی کیا ضرورت؟ 

یہ استدلال بڑی حد تک درست ہے کہ امریکہ کو ایران کیخلاف محاذ میں پاکستان کی مدد اس طرح درکار نہیں ہوگی جس طرح افغانستان کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اگاڑی ریاست کا درجہ دیا گیا تھا لیکن جنگ کے شعلے بھڑک اُٹھے تو نہ صرف پاکستان اس کی زد میں آئے گا بلکہ امریکہ کے لئے اس خطے میں پاکستانی تعاون حاصل کرنا ناگزیر ہو جائے گا۔ 

یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے نہ صرف پاک فوج کی تربیت کا پروگرام بحال کر دیا گیا ہے دیگر معاملات سے متعلق بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ایک اہم ترین سوال یہ ہے ایران کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ ایران امریکہ کو براہِ راست نشانہ نہیں بنا سکتا اور نہ ہی ایران کی افواج اور جنگ کی صورت میں دفاع کا امریکی استعداد سے موازنہ کیا جا سکتا ہے تو پھر ایران کس طرح جنرل قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لے سکتا ہے؟ 

ایران کی اصل طاقت اس خطے میں موجود اس کی پراکسیز ہیں۔ عراق، شام اور یمن میں کئی مسلح گروہ ایرانی حکام کے اشارے پر امریکی مفادات کو نشانہ بنا سکتے ہیں جیسا کہ عراق میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل حملہ کیا گیا ہے اس طرح کی مزید کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔ 

اگر ان حملوں کے جواب میں امریکہ نے حکمت کے پیش نظر تحمل اور برداشت سے کام لیا تو شاید تنائو کی کیفیت کم ہو جائے لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر میں ہورہے صدارتی انتخابات میں اپنی ریٹنگ بڑھانے کی غرض سے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے بڑی کارروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا تو صورتحال نہ صرف گمبھیر ہو جائے گی بلکہ دونوں ممالک کے اتحادی بھی اس جنگ کی زد میں آ سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں ہر معاملے کو مذہب اور مسلک کی عینک سے دیکھنے کا رجحان ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک طبقہ ایران کی مخاصمت اور مخالفت میں اُدھار کھائے بیٹھا ہے، اسکی طرف سے اصرار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ لین دین کرکے اپنا حصہ وصول کرے اور اس جنگ کا ہراول دستہ بن جائے جبکہ دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان کو اپنے برادر اسلامی ملک کا ساتھ دیتے ہوئے امریکہ کے خلاف کھل کا میدان میں آجانا چاہئے۔

یہ دونوں موقف انتہا پسندانہ اور حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ پاکستان اس کشمکش میں کسی فریق کا ساتھ دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ خطے میں بالادستی اور ملکی مفادات کی جنگ ہے اور پاکستان کیلئے دو دھاری تلوار ہے، اس لیے اس ضمن میں سب سے پہلے پاکستان کی پالیسی اپنائی جائے تو بہتر ہوگا۔

تازہ ترین