انسان کو بچپن میں جو سکھایا جاتا ہے ایک مشاہدے کے مطابق وہ دیرپا اثرات کا حامل علم ہے جو انسان کی سوچ اور طرزِ زندگی پر سب سے گہرے نقوش چھوڑتا ہے، جدید دنیا میں بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ مستقبل میں وہ اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنی 23سالہ سیاسی جدوجہد میں جس شعبہ میں تبدیلی کا بار بار ذکر کیا، وہ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام ہے انہوں نے اس عزم کا اظہار بار ہا کیا کہ اگر ہمیں بحیثیت قوم آگے بڑھنا ہے تو تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی جن میں ایک نکتہ ملک میں ہر قسم کے تعلیمی ادارے جو رسمی یا غیر رسمی، مذہبی یا جدید تعلیم کے حوالے سے کام کر رہے ہیں، میں مشترکہ نصاب ہونا بھی شامل ہے تاکہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اُن کی شخصیت پر یکساں اثرات مرتب کرے۔
پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کو سائنسی انداز میں استعمال نہ کرنے کی وجہ سے جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں کارکردگی کے حوالے سے حکومت کو چیلنجز کا سامنا ہے وہیں تعلیم کے شعبہ میں بھی اصلاحات صوبائی اور وفاقی سطح پر کی جا رہی ہیں لیکن ان اصلاحات کے خدوخال کے حوالےسے حکومت وسائل کی کمی کا شکار نظر آ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے عمران خان کا وژن جو تعلیم کے حوالے سے انقلابی افکار کا حامل ہے، پر عملدرآمد کی رفتار اس قدر تیزی نہیں جیسی کپتان کی بولنگ میں تھی۔ ہمارے ہاں تعلیم کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے، اسکول یا مدرسوں کی صورت میں بچوں کو تعلیم فراہم کرتے ہیں اور یوں پاکستان میں بنیادی تعلیم فراہم کرنے کے لئے بنیادی طور پر تین طرح کے تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں، گورنمنٹ اسکول، پرائیویٹ اسکول اور مدارس۔ شہروں میں اس وقت پرائیویٹ اسکولوں میں جانے والے بچوں کی تعداد میں بہت اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور رزلٹ بھی اچھے وہیں سے ہیں۔ جدید دنیا میں تعلیم کے بنیادی اداروں میں جو سہولتیں دستیاب ہیں وہ پاکستان کے چند پرائیویٹ اسکولوں میں موجود ہیں، البتہ ان پرائیویٹ اداروں کی مجموعی کارکردگی قابل بحث اور قابل اصلاح ہے۔ اگر ہم دیہات اور قصبوں کا جائزہ لیں تو یہاں پر سرکاری و غیر سرکاری ادارے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے موجود ہیں لیکن یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں اور سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ لوگوں کی آمدن ہے۔ بدقسمتی سے پچھلی حکومتوں نے اس سلسلہ میں زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملاً کچھ بھی ایسا نہیں کیا جس سے دیہات میں رہنے والے لوگوں کی زندگی میں عملاً بہتری آتی۔
اس مرتبہ پاکستان بھر میں سردی کی جو لہر آئی ہے اُس سے نمٹنے کیلئے ہمارے اسکولوں میں وہ انتظامات نہیں جہاں پر بچے تعلیم حاصل کرتے ہوئے شدید سردی کا مقابلہ کرتے، لہٰذا حکومت نے موسم سرما کی چھٹیاں زیادہ کر دیں لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ہمارے مسائل کچھ اور ہیں اور ہمارا فوکس کچھ اور۔ ہر روز ہمارے ہاں بریکنگ نیوز کے کلچر نے ہمارے معاشرے کی توجہ ایسے مسائل سے ہٹا دی ہے جن پر جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہئے۔ اگر ہم نے بحیثیت قوم سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو کہیں ایسا نہ ہو مستقبل میں چیلنجز کا مقابلہ ہم آنکھیں بند کرکے کیا کریں۔ جو قومیں خطرات اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہیں اُن سے پھر قدرت انتقاماً زندگی کی سہولتیں چھین لیا کرتی ہے۔
اساتذہ کے ٹرانسفر کے حوالے سے حکومت پنجاب کے محکمہ تعلیم نے انقلابی قدم اٹھایا ہے اور اب کوئی بھی استاد گھر بیٹھے آن لائن اپنا ٹرانسفر کرا سکتا ہے بشرطیکہ وہ مطلوبہ معیار پر پورا اترتا ہو۔ یہ یقیناً محکمہ تعلیم کا ایک اچھا قدم ہے لیکن ’’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘۔ میرے خیال میں تعلیم کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں لائے بغیر ہمارا ملک آگے نہیں بڑھ سکتا اور اس حوالے سے چند تجاویز قابل توجہ ہیں۔ حکومت کو فوری طور بھاری بستوں کے حوالے سے قانون سازی کرنی چاہئے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں معصوم بچوں سے بھاری بیگز اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یکساں نصاب کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی ایک مخصوص وقت میں اپنی سفارشات حکومت کو عملدرآمد کیلئے پیش کرے، تمام سرکاری ملازمین کو پابند کیا جائے کہ وہ چھ ماہ کے اندر اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرائیں، یہ ایک انقلابی قدم ہوگا جو پاکستان کے تعلیمی نظام میں تبدیلی اور بہتری کا پیش خیمہ ہوگا۔ تمام پرائیویٹ اسکول اور مدرسوں کی انتظامیہ کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اسٹاف اور اساتذہ کو ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی بینک کے ذریعہ کریں کیونکہ کم تر تنخواہ معیاری تعلیم اور رزلٹ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسکولوں میں کلین اینڈ گرین پاکستان کے حوالے سے پریڈ مخصوص کرنے کا قانون متعارف کروایا جائے اور یورپ کی طرز پر بچوں سے صفائی اور گرین پاکستان کے حوالے سے عملاً کام لیا جائے۔ کھیلوں کے مقابلے ہر سطح پر منعقد کئے جائیں۔ بچوں کے مختلف اداروں کے مطالعاتی دورے مستقل بنیادوں پر کرائے جائیں، یہ معیشت کی بحالی کیلئے لانگ ٹرم پالیسی ہوگی تاکہ نوجوان نسل کو اپنے ملک کے حالات سے عملاً آگاہی ہو۔ چائلڈ ایب-یوز کے حوالے سے آگاہی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہو۔ جو ادارے اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوں، اُن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ غرضکہ بے شمار عملی اقدامات ہمارے تعلیمی نظام میں بہتری لا سکتے ہیں کیونکہ تعلیم کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیوں کے بغیر نئے پاکستان کے خواب کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہوگا۔