مرزا محمد رمضان
وطنِ عزیز، پاکستان ہم پر اللہ کا احسان، ایک نعمت ہے، جس کا ذرّہ ذرّہ سونا ہے۔ خُوش گوار ، معتدل موسم،بے مثال پہاڑی سلسلے،طویل بل کھاتے دریا،آبی ذخائر، جھیلیں، نہریں، آب شاریں،گھنے سایہ دار جنگلات ،وسیع و عریض چراگاہیں، تھر، چولستان، خاران جیسے صحرااورسرسبزوشاداب کھیت جس کے حُسن کو چار چاند لگاتے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے یہ سرز مین ’’جنگلی حیات‘‘ جیسی قدرتی دولت سے مالا مال ہے۔
اس قدرتی دولت میں فلک بوس چوٹیوں پر مارخور، سنگلاخ چٹانوںپر اڑیال ، چکور، صحراؤں میں کلانچے بھرتے چنکارے، رقص کناں مور، تلور، مارگلہ اور ہمالیہ کے جنگلوں میں دندناتے، چکراتے رنگ برنگے تیتر، چکور، آب گاہوں، آب گینوں پر بسیرا کرنےوالے مُگھ، قاز، حواصل، مرغابیاں، سُرخاب، میدانوں، چراگاہوں میں ’’سبحان تیری قدرت‘‘ کا وِرد کرنے والے خوش الحان تیتر، کھیتوں میں کسان دوست پرندے فاختائیں، تلیر، ہُدہُد، باغوں، باغیچوں میں چہچہاتے، گُنگناتے طُیور، بلبل، توتے، ہریل، پانیوں کی کثافتیں چٹ کرنے والے کچھوے، ماحول سے متعفّن آلائشیں، مُردار کھا نےوالے گِدھ، چیلیں،کوّے اور نخلستانوں ویرانوں میں محوِ پرواز عقاب اور بازوغیرہ شامل ہیں۔
تاہم، ہم انسان کس قدر خود غرض اور سفّاک ہیں کہ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے والی اس بے زبان مخلوق،جنگلی جانوروں ، پرندوں ، اور خزندوں سے اَن گنت غذائی ، ادویائی، تفریحی اور تحقیقی ثمرات حاصل کر نےکے باوجود انہی کی جان کے درپے ہیں۔
روزی روٹی ، کھیل تماشوں کی آڑ میں جنگلی حیات کی نایا ب اور نادر انواع کو معدوم کرتےجا رہے ہیں۔ اس ضمن میں بے دریغ شکار ،جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت، اسمگلنگ ، شہری و صنعتی آبادیوں کی بے ہنگم وسعت پذیری ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی ، زراعت میں ضرر رساں کیمیائی ادویہ کے بے جا چھڑکاؤ اور جانوروں، پرندوں کے مساکن کی تباہی نے تباہ کُن کر دار ادا کیا ہے۔ حکومتِ پاکستان اپنےمروجّہ قوانین کے مطابق مخصوص موسم میں مختلف جانوروں ، پرندوں کے شکار کی اجازت دیتی ہے، تاکہ عوام کو کھیل و تفریح کی ایک صُورت میسّر آسکے۔
نیز، غیر قانونی شکار کی روک تھام بھی ہو جائے۔یاد رہے کہ حکومتِ پاکستان نے 2005سےشاہین کے شکار ، کاروبار اوربرآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ علاوہ ازیں، نایاب جانوروں کے شکار پر بھی پابندی ہے اور انہیں شکاریوں سے بچانے کے لیے حکومتی ادارے وقتاً فوقتاً اقدامات بھی کرتے ہیں، مگر خاطر خواہ نتائج بر آمد نہیں ہو رہے۔ یعنی ،نایاب پرندوں اور جانوروں کی تعداد بتدریج کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
حالاں کہ ہمیں ہر گز یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جنگلی جانور نہ صرف ماحول کو متوازن رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں، بلکہ ان سے ماحول کہیں زیادہ خُوب صُورت ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سےمخصوص، نایاب جانوروں کے شکار پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود غیر قانونی شکار کا سلسلہ تھم نہیں پا ر ہا ، ہر سال سیکڑوں نہیں، ہزاروں کی تعداد میں جنگلی جانوروں کا گوشت کھالیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں قانونی طور پر اجازت نامہ لے کرشکار کرنے والوں کو بھی چاہیے، شکاریوں کے لیے وضع کیے گئے قانون کی مکمل پاسداری کریں۔
یاد رکھیں ، ایک ذمّے دار شکاری نہ صرف قواعِد و ضوابط کی پاسداری کرتا ہے، بلکہ دَورانِ شکار اخلاقی پہلوئو ں کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتا ہے ۔ شکار کو ایک کھیل ہی سمجھیں ، اسے حصولِ گوشت کا ذریعہ مت جانیں۔ دورانِ شکا ر اگر کوئی نشانہ خطا ہو جائے، تو تحمّل کا مظاہرہ کریں ،وہاں موجود دیگر پرندوں پر فا ئر مت کریں ۔ افزائش ِنسل میں خلل سے گریز کریں اورشکار کے وہ طریقے اپنائیں، جن سے ذہنی و جسمانی ورزش کے فواید حاصل ہوں۔
اپنی نشانے بازی کی صلاحیت بڑھائیں، کیوںکہ خراب نشانے بازی بھی جنگلی حیات کی تباہی کا موجب بنتی ہے، اور زخمی ہوکر بھاگ جانےوالے پرندوں کی اکثریت مر جاتی ہے ۔جن پرندوں کے شکار کی اجازت ہے بس انہی کا شکار کریں۔اسکولوں ، کھیلوں کے میدانوں، اسپتالوں ،صنعتی وتجارتی عمارات، قبرستان اور رہائش گاہوں کے نزدیک شکار مت کریں۔ مزروعہ زمینوں/کھیتوں میں مالکان کی اجازت کے بغیر گاڑی نہ چلائیں اور کسی بھی راستے کو شکار کے مقصد کےلیے بند نہ کریں کہ یہ انتہائی غیر اخلاقی فعل ہے ۔
یاد رکھیں،جنگلی حیات اور مختلف موسموں میں ہجرت کرکے آنے والے ’’مہمان پرندے‘‘ ہمارے مُلک کا قیمتی اثاثہ ہیں اور ماحولیات، انسانوں ہی کی طرح ان کی حفاظت بھی ہماری ذمّے داری ہے۔