سلطان چاکی سومرو
80کی دہائی میں کراچی ٹی وی سے اپنا کیریئر شروع کرنے والے اظہار قاضی نے نہایت کم عرصےمیں شُہرت کی بلندیوں کو چُھوا۔ ایک سے بڑھ کر ایک ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں یادگار کردار کیے۔وہ آیا،اُس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔یہ مثل ان پر صادق آتی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ اس وجیہہ اور روشن چہرہ انسان کو ہم سے بچھڑے دس برس بیت چکے ہیں۔
اظہار قاضی ایک دین دار گھرانے میں 15ستمبر 1959ء کو کراچی کے علاقے کھڈا مارکیٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد میٹرک حاجی عبداللہ ہارون سیکنڈری اسکول سے نمایاں پوزیشن میں پاس کیا اور گریجویشن ایس ایم کالج کراچی سے اوّل پوزیشن سے پاس کیا۔
کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے اکنامکس کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور ایس ایم لاء کالج کراچی سے ایل ایل بی بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ روزگار کی تلاش اظہار قاضی کو بالآخر پاکستان اسٹیل مل لے گئی، جہاں انہوں نے ایڈمن منیجر کی پوسٹ پر کام کیا۔ ایک شادی کی تقریب میں جہاں اظہار قاضی شریک تھے،ٹی وی کی مایہ ناز رائٹرفاطمہ ثریا بجیا مرحومہ نے اظہار قاضی کی شکل میں ایک نیا ہیروکھوج لیا۔
بجیانے اظہار قاضی کو آڈیشن کے لیے بلالیا اور یہی آڈیشن اُن کی ٹی وی پر آمد کا سبب بنا۔ چند مختصر دورانیے کے ڈراموں میں کام کرنے کے بعد ڈراما سیریل ’’انا‘‘وہ پہلا پروجیکٹ تھا،جس نے اُنہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا تھا۔ اس سیریل میں اظہار قاضی کی ہیروئن مہرین الٰہی تھیں۔
اظہار قاضی نے اس کے علاوہ ڈراماسیریز دائرہ ، تھکن، اور زادِراہ، میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کے بعد یہ سفرڈراما سیریز ’’بھنور‘‘کے ڈرامے میرے بھی ہیں کچھ خواب، تک جاری رہا۔ ڈراما سیریل ’’گردش‘‘ میں روحی بانو اور انیتا ایوب نے اظہار قاضی کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھائے۔انا،کے بعد ہدایت کار نذرشباب کی نظر انتخاب اظہارقاضی پر ٹھہری تو انہوں نے انہیں اپنی فلم ’’روبی‘‘ میں سبیتا اور گیتا کماری کے ساتھ سائن کرلیا اور یُوں یہ خوبرو ہیرو چھوٹی اسکرین سے بڑی اسکرین پر جگمگانے لگا۔ یہ فلم کام یاب رہی اور اس طرح اظہار قاضی کے لیے فلم انڈسٹری کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ فلم روبی، 1986ء میں ریلیز ہوئی۔
اسی سال اظہار قاضی کی ہدایت کار جان محمد کے ساتھ پہلی فلم ’’بنکاک کے چور‘‘ بھی ریلیز ہوئی۔1987ء میں اظہار قاضی کی تیسری فلم ’’لوان نیپال‘‘ (ہدایت کار وزیرعلی) ریلیز ہوئی۔ انہوں نے اپنی تیسری ہی فلم میں ینگ ٹو اولڈ کردار ادا کیا اور شبنم اور ششما شاہی جیسی ہیروئنز کے ساتھ اعتماد سے کام کیا۔ 1987ء میں منیلا کی بجلیاں، ہمت والا، نجات، میرا انصاف، ریلیز ہوئیں۔
اسی سال اظہار قاضی کی پہلی پنجابی فلم ’’دُلاری‘‘ بھی فلم بینوں نے ناصرف پسند کی، بلکہ انجمن کے ساتھ اظہار قاضی کی جوڑی کو بھی پسند کیاگیا۔1991ء میں ریلیزہوئی فلم چراغ بالی، میں بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ اظہار قاضی کو دیاگیا۔2002ء میں اظہار قاضی کی پنجابی فلم بالی جٹی،ریلیزہوئی اور نمایاں کام یابی حاصل کی۔
2004ء میں اظہار قاضی کی واحد فلم دامن اور چنگاری، ریلیز ہوئی۔2005ء میں اظہار قاضی کی ایک فلم پرچم،ریلیز ہوئی ۔یہ وہ دور تھا، جب اظہار قاضی غیر معیاری فلموں سے نالاں ہوکر انڈسٹری سے تقریباً کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے۔اس دوران وہ رئیل اسٹیٹ کے بزنس سے وابستہ ہوگئے۔اظہار قاضی اداکاری کے ساتھ ساتھ اچھی آواز اور اچھے اخلاق کے بھی مالک تھے۔ انہوں نے گلوکاری میں بھی طبع آزمائی کی۔
ان کی 2 آڈیو کیسٹس بھی ریلیز ہوئیں۔ ایک سونک کمپنی اور ایک ایگل کمپنی نے ریلیز کی۔اُن کا میوزک ویڈیو ’’پہلی ایک نظر میں‘‘ این ٹی ایم پر ریلیز ہوا۔ ’’ میں ہوں ایک بنجارا‘‘ پی ٹی وی پر، کیسے سپنے سجائوں کیسے دیپ جلائوں (زخم۔ ٹیلی فلم) این ٹی ایم پر ریلیز ہوا۔اظہار قاضی نے ریڈیو پر بھی ایک پروگرام کیا۔ ریڈیو پاکستان سیالکوٹ سے ان کا شو ’’سیالکوٹ کی آواز‘‘بے حد مقبول ہوا۔یہ پروگرام پانچ گھنٹے براہ راست ریڈیو پر نشر ہوا۔
اظہار قاضی جب کراچی شفٹ ہوئے تو ان کے تین اشتہارات بھی ٹی وی پر چلے۔ اس کے علاوہ اظہار قاضی نے دو ڈراما سیریلز کیں، جو پی ٹی وی پر آن ایئر ہوئیں۔ گناہ گار، میں اظہار نے ینگ ٹو اولڈ کردار نبھایا،زیبا بختیاراس کی ہیروئن تھیں۔دوسرا ڈراما پانی پہ نام، تھا۔اظہار قاضی کی آخری فلم ’’ایشیا کے ٹائیگرز‘‘ اب تک ریلیز نہ ہوسکی۔
انتقال سے قبل وہ اپنے دوست جنید جمشید کے ساتھ مل کر قرآن پاک کی انگریزی تفسیر پر کام کررہے تھے، مگر زندگی نے مہلت نہ دی اور فلم انڈسٹری کا یہ چمکتا ہوا ستارہ 24دسمبر2007 کی شب غروب ہو گیا۔لیکن فن کار تو ہمیشہ اپنے فن کی بدولت زندہ رہتا ہے۔