• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ بلوچستان کی جو حالتِ زار ہے اُس کی حقیقت گزشتہ تین روز کے دوران ہونے والی بارشوں، برف باری اور سیلابوں سے ایک بار پھر ملک و قوم پر واضح ہوئی ہے اِن آفات کے نتیجے میں گیارہ افراد جاں بحق اور متعدد کے زخمی ہونے کیساتھ ساتھ بہت سے گھروں کی چار دیواریوں اور چھتوں کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ شدید برفباری کی وجہ سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت مختلف اضلاع میں بجلی کا طویل بریک ڈائون ہوا، کئی علاقوں میں گیس پریشر کی کمی اور ایندھن کے فقدان سے صوبے کے لوگ انتہائی مشکل میں ہیں۔ لکپاس ٹاپ، نوشکی، کوئٹہ تفتان شاہراہ، ماشکیل، گوادر، پنجگور، خاران اور تربت وغیرہ بارش اور برف باری سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جبکہ دریائے بڈو اور گروک میں سیلابی ریلا آنے سے خاران، بسیمہ پنجگور اور کراچی کی ٹریفک معطل ہے مختلف اضلاع میں پاک فوج اور ایف سی نے کنٹرول سنبھال کر متاثرین کے لئے عارضی پناہ گاہیں قائم کر دی ہیں۔ بلاشبہ متذکرہ صورتحال ایک قدرتی معاملہ ہے لیکن من حیث القوم اس سے کسی صورت پہلو تہی ممکن نہیں۔ یہ تعمیر و ترقی کا دور ہے جس کی بدولت کسی بھی حد تک جان و مال کے نقصان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے پاک فوج کے تعاون سے خوشحال بلوچستان پروگرام کا آغاز کیا تھا جس میں کچی آبادیوں میں رہنے والے خاندانوں کیلئے گھروں کی تعمیر، روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع بروئےکار لانا مقصود تھا۔ یہ انتہائی تشویشناک امر ہے کہ بلوچستان کی 71فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس کے باعث یہ لوگ معاشی طور کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ آفات سماوی کی موجودہ صورتحال میں ضروری ہے کہ متاثرہ افراد کی مکمل بحالی کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین