• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشہور مورخ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تشدد اور سختی کے ساتھ کسی بھی نظام کو زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ سماج میں جس قدر تشدد ہوگا، اُسی قدر اُس کے خلاف مزاحمت ہو گی۔ جمہوری ادارے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ یہ انسان کی جبلت ہے کہ وہ مل جل کر رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنے مسائل کو مل جل کر حل کرے کیونکہ جو فیصلے جمہوری انداز میں کیے جاتے ہیں، اُن کے نتائج بھی صحت مند ہوتے ہیں کیونکہ اُن کا تعلق لوگوں سے ہوتا ہے لیکن اِس کے برعکس آج کے پاکستان کے سیاسی ماحول میں ستر سال گزرنے کے باوجود جمہوری ادارے سماج میں اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکے۔ پاکستان میں آج بظاہر ایک منتخب حکومت برسر اقتدار ہے لیکن اس کے باوجود جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے امکانات روشن نہیں ہیں جس کی بنیادی وجہ سیاست میں ایسے طبقات کو تقویت ملنا ہے جن کا مفاد ارتقا پذیر جمہوری سیاسی نظام میں نہیں ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں جاگیردار، نوکر شاہی، قبائلی سردار اور گماشتہ سرمایہ دار طبقات نے ریاست کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہو، وہاں جمہوریت کی عمارت تعمیر کرنا جان جوکھم کا کام ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ بلاشبہ بہت مختصر ہے لیکن اس کے حکمرانوں کی یادداشت اس سے بھی زیادہ مختصر اور محدود ہے۔ تباہی اور بربادی کے بعد ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے اور پھر اس بات سے بھی اتفاق کرتی ہے کہ جمہوری عمل کی بیخ کنی کرنے کی وجہ سے سماج کو بہت نقصان ہوا ہے مگر جب اس بربادی سے بچنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں تو ایسی سیاسی فضا پیدا کر دی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں حکمرانوں سے اختلاف کرتے ہوئے گھبراتی ہیں۔ خوف و ہراس کے اس ماحول میں سنگ و خشت مقید ہو جاتے ہیں اور سگ آزاد۔ جمہوریت کے ساتھ ایسا سلوک اس سے پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے اور اگر جمہوریت پسند سیاسی ورکروں نے پارٹیوں میں داخلی طور پر اصلاحات کیلئے دبائو نہ ڈالا تو مستقبل میں بھی ایسے ہی سلوک کے امکانات موجود ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللّٰہ بابر نے کہا ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں اندرونی جمہوریت کے بارے میں بات نہیں کی جاتی جو بڑی تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے حال ہی بننے والے قانون میں چار ترامیم منظور کی تھیں، تاہم کمیٹی کو اعتماد لیے بغیر ہی پارٹی قیادت نے ترمیم واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے تجویز پیش کی کہ جمہوری عمل کی بالادستی کیلئے نیا میثاقِ جمہوریت لایا جائے تاکہ سیاسی جماعتوں کے اندرونی فیصلے ون مین شو کے بجائے جمہوری عمل کے مطابق ہوں۔ سینیٹر حاصل بزنجو نے تو اس حد تک کہہ دیا ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے مل کر آج جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آج ہم عجیب ماحول میں ہیں کہ جہاں پارلیمنٹ موجود ہے، آئین موجود ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں اپنا کام کر رہے ہیں لیکن اگر کچھ موجود نہیں ہے تو وہ جمہوریت ہے۔

مسلم لیگ نون جس نے تقریباً ڈیڑھ سال سے پاکستان کے سیاسی ماحول میں مزاحمتی کردار کو تقویت پہنچائی تھی اور جسے سیاسی مدبرین نیک شگون گردان رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ سیاسی مزاحمتی ماحول پاکستان کو سول بالادستی کے عروج پر پہنچنے دے گا، اسی مسلم لیگ نون کو اپنے ہی ورکروں کی طرف سے آج شدید تنقید کا سامنا ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے آزادی مارچ کا حصہ نہ بن کر اپنی حکمتِ عملی واضح کر دی تھی، وہ یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایسے جاگیردار، سرمایہ دار اور قبائلی سردار عوام کے نمائندے بن کر اسمبلیوں میں نہ آئیں جو دونوں پائوں پر کھڑے ہوکر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈال سکتے۔ ابھی صرف دو ماہ پہلے ہی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں تقریباً چودہ سینیٹرز نے دونوں بڑی پارٹیوں کی جماعتی پالیسیوں کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے مخالفت میں ووٹ ڈالے۔ یہ پارٹیاں دو ماہ کی تحقیقات کے بعد بھی عوام کو ان پارلمنٹیرین کے نام نہ بتا سکیں کیونکہ اُنہیں الیکٹ ایبلز کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ نظریاتی پارلیمنٹیرینز کی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں منتخب کردہ ماحول میں ہی سیاست کرنا چاہتی ہیں اور شاید ان کا مطمح نظر نیب کے مقدمات سے ہرصورت میں بچنا ہے، اسی وجہ سے پوری پارلیمنٹ اس بات پر متفق ہوگئی ہے کہ نیب کو بے اثر کر دیا جائے اور اس سلسلے میں قانون سازی پر اتفاق بھی ہو گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عوامی مفاد میں ان بڑی جماعتوں کے ساتھ مل کر کوئی قانون سازی نہیں کر سکی اور مسلسل آرڈیننس کا سہارا لے رہی ہے لیکن جہاں اپنے مفادات کی بات آتی ہے وہاں تینوں بڑی جماعتیں متفق ہو جاتی ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے مدبرین کا یہ خیال ہے کہ یہ فیصلے ہم نے وقتی مجبوریوں کی وجہ سے کیے ہیں اور جب سیاسی ماحول سازگار ہوگا تو آٹھارہویں ترمیم کی طرز پر بڑے فیصلے کر سکیں گے اور یوں وہ دوبارہ عوام کی نظر میں خوشنودی حاصل کر لیں گے لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایک جدید نو آبادیاتی ماحول میں حکمراں طبقے سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ منظم رہے ہیں۔

آج پاکستان میں ایک تجویز کردہ سیاسی حل ملک میں جمہوری اور سیاسی ارتقا پذیر معاشرے کے بجائے فسطائیت کے نظام کو تقویت پہنچا رہا ہے، اس لئے ضرورت ہے کہ کم از کم مغربی جمہوری ماحول سے استفادہ کیا جائے اور پارلیمنٹ اور سول بالادستی کی تحریک کو جمہوری عمل کے ذریعے آگے بڑھایا جائے کیونکہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام بھی پارلیمنٹ اور سول بالادستی کے بغیر تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور مکان کی سہولتوں سے استفادہ نہیں کر سکیں گے اور عوام کا اعتماد جمہوریت پر مزید کمزور ہو جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین