• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باوجود کوشش کے وہ " بے توقیری" میرے دماغ سے نکل نہیں پارہی ہے۔ بار بار سرجھٹکنے اور دوسری طرف توجہ مبذول کروانے کے گھوم پھر کر وہ منظربار بار آنکھوں کے سامنے آئے چلا جارہا ہے۔ اسی لیے قلم اٹھالیا کہ شاید دل کی بات قلم کے ذریعے لوگوں تک پہنچے تو کچھ سکوں ملے۔ بچپن سے ہم مردوں کو کچھ اختیار دیئے جاتے ہیں کہ بڑے ہوکر ڈاکٹر،انجیئنرز یا فوجی بننا ہے۔ اور ہم سب فوجی بننے کے جنون میں بچپن سے مبتلاہوجاتے ہیں۔ فرمائش کرنے پر فوجی لباس اورفوجی ٹوپی ہمیں پہنائی جاتی ہے جسے پہننے کے بعد ہم فوراً دشمنوں کے خلاف سینہ سپرہوجاتے ہیں اور انہیں نسیت ونابود کرنے کی ٹھان لیتے ہیں ۔ مشن مکمل کرکے والدین کے سامنے فخر سے ٹوپی اتار کر زمین پر پاؤں مار کر انہیں سلام پیش کرتے ۔ ایسے میں " جوتوں" کا خیال کبھی نہ آیا۔ " خالی وردی "اور وہ "فوجی کیپ "ہمیشہ فخر کی علامت سمجھا۔ کسی کو اس وردی میں دیکھ لیتے تو سلام کرنے اور ہاتھ ملانے پہنچ جاتے۔ کئی مرتبہ اس محبت میں پولیس والوں کو بھی سلیوٹ کرتے ان سے ہاتھ ملاتے اور ان کے ساتھ تصویریں کھنچواتے کہ یہ ہمارے محافظ ہیں ۔ جوتے پھر بھی درمیان نہ آتے۔بڑے ہوئے تو 58 ءکے مارشل لاء کو کتابوں میںپڑھا ، 77 ء کے مارشل لاءکو بزرگوں سے سننا اور 99ءکے مارشل لاء کوخوددیکھا۔ پھر خبروں اور اخبارات کےذریعے " بوٹوں کی آواز" کا استعارہ سننا اور پڑھا، یعنی بھاری بوٹوں کی آوازکا استعارہ مارشل لاء کی پیش قدمی کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ جب " منتخب جمہوری" حکومتوں کو اپنا اقتدار خطرہ میں لگتا اور فوجی آمریت کے آنے کا خوف ہوتا تووہ بوٹ کا لفظ استعمال کرتیں۔ یقیناً بھاری بوٹ کے الفاظ کا استعمال جمہوری حکومتوں کو روندنے کے لیے استعمال ہونے لگا یعنی صرف چند افراد کے لیے جو حکمرانی کے شوقین ہوں ۔ لیکن پورے ادارے کو اس کی لپیٹ میں لے لینا درست نہیں۔ بلکہ انتہائی زیادتی اورناانصافی ہے۔ چند افراد کی ذاتی خواہشات اور اعمال پر پورے ادارے کو ظالم قرار دے دیناقطعاً جائزہ نہیں۔ جس ادارے کی پہچان اس کی " خاکی وردی" ہو، جو وطن کی مٹی سے محبت کی علامت ہے۔ جو بہادری سے وطن اور اپنے ہم وطنوں کی بقا کی خاطر سینے پہ گولیاں کھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہوں۔ جن کی شہادت پہ ان کے لواحقین کو شہید کا یونیفارم دیا جاتا ہو۔ شہید کے جسدخاکی کے سرہانے اس کی ٹوپی اعزاز کے طورپہ رکھی جاتی ہو۔ اس ادارے کی پہچان " بوٹ " کیسے ہوسکتی ہے؟اگر ایسا ہوتا اور ادارہ " بوٹ "کو اپنی پہچان سمجھتا تو شہید کے ورثہ کویونیفارم کے بجائے شہید کے بوٹ سجاکردیئے جاتے۔ شہید کے جسدخاکی پہ " ٹوپی کے بجائے بوٹ کو" فوجی اعزاز کے طور پر پے تانے رکھا جاتا۔ یقیناًبلکہ ہرگز ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر کیسے اور کیوں اس ادارے کی پہچان " جوتے یا بوٹ" ہوسکتے ہیں؟ ہمارے محافظوں کو بھاری بوٹ اس لیے پہنائے جاتے ہیں کہ وہ حالات کی سختی اور مشکلات سے نبردآزماہوسکیں اور ان کے پاؤں زخمی نہ ہوں اور وہ عزم وحوصلہ سے ڈٹے رہیں۔ اگر بوٹ بھاری نہ ہوں تو پاؤں پہ چھالے بننے ، چوٹ لگنے اور کٹنے کی وجہ سے ان کے لیے مشکلات آسکتی ہیں۔ چونکہ وہ بڑی جنگ اور آزمائش سے گزرتے ہیں لہذا چھوٹی آزمائشوں سےبچاننے کے لیے انہیں بھاری جوتے پہنائے جاتے ہیں۔ لہذا ان جوتوں کو ان کی علامت قرار دینا بہت تکلیف دہ ہے۔ یہ بہادرسپاہی لوگوں کو روندنے کے لیے نہیں بلکہ آسانیاں پیدا کرنے کے لیے یہ جوتے پہنتے ہیں تاکہ سیلاب زدگان، زلزلہ زدگان کو باحفاظت محفوظ مقام پرمنتقل کرسکیں ۔ بند ٹوٹنے کی صورت میں بند باندھنے، پل ٹوٹنے کی صورت میں پل بنانے جیسے مشکل کام کرسکیں۔ یہ تو ہمارے سر کے سائیں ہیں، ہمارے چھپرچھاؤں ہیں، ہماراعزاز ہیں ۔ اعزاز، عزت اور احترام کے لیے پگھڑی ، ٹوپی یا چادر کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ سینے پہ گولی کھانے کے لیے تیار ان بہادر جوانوں کے لیے خاکی وردی ان کا کفن ہے ان کا جنون ہے۔ بوٹوں کو پہچاننے والے یقیناً ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں۔ یاد آیا انڈیا کے ایک پروگرام بگ باس میں پاکستانی اداکارہ کی بڑی دھوم تھی اورعوامی رائے میں اس کو بہت ووٹ ملتے تھے ۔ ایک قسط میں اداکارہ جوش میں جوتاپہن کر کھانے کی میز (جبکہ میزخالی تھی)پر چڑھ کر ڈانس کرنے لگی ۔اس کے بعد اس اداکارہ کی عوام میں پذیرائی کا گراف تیزی سے گرا اور اگلی قسط میں انہیں پروگرام سے نکلناپڑا۔ جب سیکولراسٹیٹ کا دعویٰ کرنے والے ملک میں اس فعل کو سخت نا پسند کیا گیا تو اسلامی جمہوریہ میں چائے کے کپ اور پانی کے گلاس کے ساتھ " بوٹ" کو رکھ دیکھنا کیسے کوئی برداشت کرسکتا ہے۔ حدہے ذہنی پستی اور قومی ادارے کی عزت کو پامال کرنے کی۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین