• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ…مریم فیصل
برطانیہ کا شمار بھی ٹھنڈے ممالک میں ہوتا ہے لیکن موسم کے بدلتے انداز نے یہاں گرمیوں کے دور کولمبا کردیا ہے ۔یہاں بسنے والے بزرگ افراد سے سنا ہے کہ برطانیہ میں بھی سال کے بارہ مہینے سردی پڑا کرتی تھی اور گرمی صرف چند روز کی مہمان بن کر چلی جاتی تھی لیکن اب کچھ برسوں سے یہاں سردی کا زور کم ہوگیا ہے اور گرمی با آسانی تین چار ماہ یہاں ٹھہر جاتی ہے اور اب کچھ یہ حال ہوگیا ہے کہ جب برطانیہ میں سردیوں کا آغاز ہوتا ہے تو یہاں کی عوام کہتی ہے کہ کچھ برف باری بھی ہوجائے کہ ہم بھی سنو فال کا مزا لے لیں ۔یہ سننے میں کتنا عجیب لگتا ہے کہ برف باری کا انتظار ہو رہا ہے لیکن یقین مانیں یہ ان ممالک میں عجیب لگتا ہے جہاں ایسے ٹھنڈے برف گرتے موسم سے نمٹنے کی سہولیات کا فقدان ہو ۔برطانیہ کینڈا جیسے ممالک میں برف باری کا تصور بالکل بھی کسی بھیانک خواب جیسا نہیں کیونکہ جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی ان ممالک میں سردی سے بچائو کے طریقے بھی آتے گئے۔ یہاں بزرگ افراد سے یہ بھی سنا ہے کہ کوئی چالیس سے بیالیس سال قبل برطانیہ میں بھی نہ ہیٹنگ کا نظام تھا نہ پانی گرم کرنے کا کوئی تصور ۔ لکڑی خرید کر جلانے کی حیثیت ہر کسی کی نہیں تھی لیکن جیسے جیسے زمانہ بدلتا گیا گھروں میں یہ سب عام ہوتا گیا ۔اس میں یہاں آنے والی حکومتوں کابہت ہاتھ تھا کہ اپنے اپنے دور میں عوام کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے کام کرتی رہیں
اسی لئے اب یہاں سردی بارش برف باری کسی کے لئے بھی زحمت نہیں لیکن جب ہم یہ سن رہے ہیں کہ وہاں پاکستان میں سو سے زائد افراد برف باری کی نذر ہوگئے ہیں تو سمجھ نہیں آرہا کہ شکوہ کس سے کریں۔ کیا اس خالق کائنات سے جس نے یہ سارے موسم انسان کے لئے بنائے یا ان آئی گئی حکومتوں سے جنھیں کبھی اس جانب سوچنے کا خیال نہیں آیا کہ ہر سال پاکستان کے بالائی علاقوں میں کتنی بے گناہ ا موات واقع ہوجاتی ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ وہاں پکے مکان تعمیر نہیں ہوئے ہیں یا پھر سڑکیں موجود نہیں لیکن بالائی علاقوں کا بڑا حصہ اب بھی کسی مضبوط انفرا اسڑکچر کی آس کر رہا ہے جو ان علاقوں کی خوبصورتی کو بھی برقرار رکھے اور وہاں کی آبادی کو بھی سہولیات میسر آسکے۔ خبروں میں سنتے ہیں کہ جو علاقے بہت اونچائی پر ہیں وہاں تک امدادی ٹیموں کا پہنچنا مشکل ہے کیونکہ وہاں کے خمدار راستے خاص کر بارش اور برفباری میں بہت خطرناک شکل اختیار کر لیتے ہیں کہ امدادی سامان کے ساتھ ان پر سے گزرنا خود موت کو دعوت دینا ہوتا ہے۔ ہر سال برف باری ہوتی ہے امدادی ٹیمیں بھی لگائی جاتیں ہیں لیکن ہر سال کے ان حادثات سے بچنے کے لئے کوئی مستقل کام نہیں کیا جاتا۔ آج بھی ان علاقوں میں لوگ لکڑی اور ٹین کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں اور قدرتی آفات میں سب سے زیادہ متاثر ایسی ہی کچے گھر ہوتے ہیں۔ سوچیں جب رہنے کیلئے گھر ایسے ہوں توسردی سے بچنے کیلئے ہیٹنگ کا کیا نظام ہوگا۔ گرم پانی کیسے میسر ہوگا۔ سردی گرمی خزاں بہار یہ سارے موسم ہمارے لئے خدا کا عطیہ ہے کیونکہ نہ تو ہم انسان سارے سال گرمی جھیل سکتے نہ سردی لیکن یہ نعمت تو تبھی بنتے ہیں جب ان کی مناسبت سے سہولیات بھی ہمارے پاس ہو۔
تازہ ترین