محمد اسلام
یہ صدیوں پرانی بات ہے مگر بات سچ ہے اور رسوائی کی بھی نہیں ہے۔ جب برصغیر میں عورت کی جھلک دکھائی نہیں دیتی تھی،محلے ،اسکول ، کالج، مارکیٹس اور دیگر مقامات پر عورت معدوم ہوتی تھی اور خواتین عموماً گھروں میں رہنا پسند کرتی تھی۔ البتہ جب انہیں مجبوراً گھر سے باہر قدم رکھنا پڑتا تھا تو پردے کا اہتمام اس طرح کیا جاتاتھاجس طرح آج کل کسی اہم شخصیت کے لئے سکیورٹی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس عہد میں عورت کا دیدار اور اس سے بات چیت کرنے کا معاملہ ایسا ہی مشکل تھا جیسے پاکستان کو قرضوں سے بے باق کرنا مشکل ہے۔ اس زمانے میں رفعت القاسمی کی طرح کوئی صاحب یہ شعر کہ بھی نہیں سکتے کہ
بغیر اس کے بھی دن گزریں گے اپنے
یہ اک لمحے کو بھی سوچا نہیں تھا
کیوں کہ اس زمانے میں یہ جنس نایاب تھی، ہاں البتہ کبھی کبھی خوش قسمتی سے کوئی صاحب، کسی خاتون کی زلف، دست حنا، ٹخنا، پیر، دوپٹے کا لہرانا اور اچانک ادھر سے ادھر ہوتے ہوئے کسی کا سراپا دیکھ لیتے تو برسوں سرد آہیں بھرتے رہتے تھے۔راتیں ہجر میں گزارتے تھے۔ ان مناظر کا تصور کر کے دل ویراں کا ماتم کرتے تھے ،مگر صاحب دیدار اور بات چیت نصیب میں کہاں ہوتی تھی۔ یہ ہیں وہ حالات جنہوں نے شعرا کو غزل کی تخلیق پر مجبور کیا۔
باالفاظ دیگر آپ کہہ سکتے ہیں کہ غزل کہہ کر اس دور میں اپنی ٹھرک پوری کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا، وہ باتیں جو عورتوں سے نہیں کی جا سکتی تھیں، وہ غزل میں کہی جانے لگیں اور غزل کی تعریف بھی یہی کی گئی کہ ’’ عورتوں سے باتیں کرنا، ‘‘ اگر غزل کا مطلب یہی ہے تو نظم میں کس سے بات کی جا سکتی ہے۔ یہ بات میرے لئے ناقابل فہم ہے کہ ا گر کوئی گونگا شاعر غزل کہے تو وہ عورتوں سے کس طرح باتیں کرے گا۔
اسے تہذیب کہئے یا شائستگی یا پھر بزدلی ، اس عہد میں شعرا ء نے غزل میں محبوب کو مذکر کی حیثیت سے مخاطب کیا ہے۔ غالباً وہ مونث کی حیثیت سے مخاطب کرتے تو فسادات پھوٹنے یا راز فاش ہونے کا خدشہ تھا۔ اور اب جو عصر حاضر میں فیس بک پر ہمیں ایسی غزلیں دکھائی دے رہی ہیں جن میں وزن اور بحر کا خیال نہیں رکھا تو ایسی غزلوں کی تعریف قطعی یہ نہیں کہ عورتوں سے باتیں کرنا۔ حکیم شرارتی نے اس کی تعریف یہ کی ہے۔ ’’خواجہ سرائوں سے باتیں کرنا‘‘دراصل حکیم صاحب کا خیال ہے کہ شعر اور عورت کا وزن اگر درست ہو تو تب ہی دونوں اچھے لگتے ہیں۔یہ ضروری نہیں کہ آپ بھی اس خیال سے اتفاق کریں۔ سردست، میں ایک سوال بھی آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جب خواتین غزل کہتی ہیں تو وہ کس سے باتیں کرتی ہیں ؟۔
اگر وہ مردوں سے باتیں کرتی ہیں تو یہ بری بات ہے اور اگر وہ عورتوں سے باتیں کرتی ہیں تو یہ انتہائی بری بات ہے۔ یوں بھی عورتیں آپس میں بات چیت کرتی رہی ہیں لیکن وہ کیا باتیں کرتی ہیں، یہ ہم نہیں بتائیں گے بلکہ آپ خود تصور کر لیں، بہر کیف جناب بات ہو رہی تھی غزل کی ابتدا کی تو غزل کامعاملہ ایسا ہی ہے کہ،وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا۔ بالفاظ دیگر لوگ غزل سے شناسا ہوتے گئے اور یہ مقبول ہوتی گئی۔ہمارے شعراء نے ابتدا سے ہی غزل کی خوب پذیرائی کی۔ بالکل پروین شاکر کر کے اس شعر کی طرح۔
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
غزل ایک خوبصورت اور انتہائی مقبول صنف ہے۔ یہ چار سو برس سے زائد عرصے سے کہی جا رہی ہے لیکن بوڑھی نہیں ہوئی۔ آج بھی حسین ہے، پرکشش ہے، توانا ہے اور ہر شاعر اس کی آبیاری کر کے فخر محسوس کرتا ہے۔ اب ساری دنیا جانتی ہے کہ اردو غزل کسے کہتے ہیں، بقول احمد ندیم قاسمی۔
’’ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے۔‘‘
آپ غزل کو اردو شاعری کا شاہکار قراردے سکتے ہیں، احمد ندیم قاسمی کا ہی شعر ہے۔
جس بھی فنکار کا شاہکار ہو تم
اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہوگا
غزل معدوم نہیں ہوئی،شکست و ریخت کا شکار نہیں ہوئی، صدی پر صدی گزرتی گئی اور غزل کی توانائی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ آج بھی جوان ہے اور خاص وعام میں مقبول ہے۔
اس لئے آپ کہہ سکتےہیں ،غزل بہت پیاری شے ہے یا مجھے غزل سے محبت ہے لیکن میں یہ واضح کر دوں کہ میں کسی ذکیہ ،رابعہ اور غزل کی بات نہیں کر رہا ہوں، یہ غزل تو ایک موسیقارانہ اور سریلا خیال ہے، جس میں عورتوں سے باتیں کی جاتی ہیں، اس حوالے سے ایک واقعہ یاد آ گیا۔
’’ایک خان صاحب کا لڑکا شاعر تھا، اور غزل لھی کہتا تھا، یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری تھا، ایک دن وہ خان صاحب گھر میں داخل ہوئے اور سیدھے اپنے صاحب زادے کے کمرے میں گئے۔ انہوں نے اسے خوب مارا پیٹا ،چیخ و پکار پر خان صاحب کی اہلیہ بھاگی بھاگی آئیں اوراستفسار کیا،معاملہ کیا ہے ؟ خان صاحب نے بتایا کہ ’’ان کے دوست نے انہیں آج غزل کا مطلب سمجھایا ہے ،میں سمجھتا تھا یہ دن بھر پڑھتا لکھتا رہتا ہے، مگر یہ تو سارا دن عورتوں سے باتیں کرتا ہے۔ ‘‘
دیکھئے جناب ،بعض غزلیں خوبصورت اور رومانوی نوعیت کی ہوتی ہیں لہٰذا بندہ خوبصورت اور رومان پسند خواتین سے باتیں کرتا ہے۔ اس طرح بعض غزلیں پراسرار قسم کی ہوتی ہیں، جس میں شاعر پراسرار عورتوں سے باتیں کرتا ہے۔اس طرح غزلوں کی کئی اقسام ہو سکتی ہیں، آپ چاہیں تو از خود نوٹس لے کر ان میں اضافہ کر سکتے ہیں۔لیکن ہم یہاں صرف ایک اور غزل کا اضافہ کرنا پسند کریں گے اور وہ ہے ’’ہکلی غزل‘‘ ہاں ہکلی غزل بھی ہوتی ہےکیونکہ محبوب ہکلا بھی ہو سکتا ہے۔ دیکھئے شاعر ہیں سید محمد جعفری، ہم بطور ثبوت ان کی ہکلی غزل سے ایک شعر پیش کئے دیتے ہیں۔
م م مجھ میں ت ت تجھ سے میں جور رر ربط اور ض ض ضبط ہے ۔۔۔۔۔ بلبل اور گ گ گل میں بھی م میانہ چ چمن نہ ہو۔
لیجئے صاحب، میں اس شعر کو ہکلے شعراء اور ان کے ہکلے محبوبوں کے نام معنون کرتا ہوں۔
میں نے بار بار اس امر کا تذکرہ کیا ہے کہ غزل سے مراد، عورتوں سے باتیں کرنا ہے۔لیکن یہ ماضی کا نظریہ ہے اور غزل کی نظریاتی حیثیت سے قطع نظر ،اس کی عملی صورت یہ ہے کہ ہم نے باقاعدہ عورتوں سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل بیشتر مرد غزل کی عملی صورت پر ہی زیادہ یقین رکھتے ہیں، عصر حاضر میں غزل کا نظریاتی اور عملی تصور پوری قوت سے دکھائی دیتا ہے۔
بہر کیف غزل اچھی ہو تو شاعر مبارک باد کا مستحق ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ا یک دوست نے مشورہ دیا ہے کہ مبارک باد دینے سے پہلے کسی عالم سے ضرور دریافت کر لیں کہ بہترین غزل ہونے پر مبارک باد دینا جائز ہے یا ناجائز ؟انشاء اللہ خان انشا کا ایک خوبصورت شعر ہے کہ
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یہاں سب بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
دراصل یہاں معاملہ ایکسپائری ڈیٹ کا تھا، ہمارے مذکورہ دوست نے سوال کیا ہے کہ ،ہر شے کی ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے ،کوئی بتائے گا کہ امیر خسرو ،میر تقی میر اور غالب کی غزلوں کی ایکسپائری ڈیٹ کیا ہے ؟
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائے کیا
’’وارننگ ‘‘ ان سطور میں یہ وارننگ دی جا رہی ہے کہ اس مضمون کا مطالعہ صرف وہی خواتین کریں جن کا نام غزل نہیں ہے۔ ورنہ نتائج کی ذمہ دار وہ خود ہو ں گی۔