• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیزی سے بدلتی ہوئی صنعتی ضروریات دنیا کو اس بات پر مجبور کررہی ہیں کہ وہ تعلیم کو بھی ان ’تیزی سے بدلتی ہوئی صنعتی ضروریات‘ سے ہم آہنگ کریں۔ اگرچہ دورِ جدید میں STEM ایجوکیشن (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، میتھ میٹکس) کو پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کیلئے بنیادی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے دور میں دنیا کو STEEM (اضافی E انٹرپرینیورشپ کیلئے ہے) ایجوکیشن کی ضرورت ہوگی۔

انٹرپرینیورشپ کی اہمیت

STEEM ایک ایسا تعلیمی نظام ہےجو طلبا اور ان کی صلاحیتوں کو مستقبل کی جاب مارکیٹ کے لیے ایک ’ملازم‘ کے بجائے ایک مفکر، تخلیق کار اور بانی کے طور پر تیار کرتا ہے۔ دورِ جدید کی عظیم کاروباری شخصیات کے بارے میں تھوڑا تصور کریں کہ انہوں نے ہمیں ایک بہتر دنیا دینے کے لیے کیا ایجادات پیش کی ہیں:بِل گیٹس، اسٹیو جابس، جیک ڈورسی اور اوپرا وِنفری۔ کیا چیز انھیں دنیا کی کامیاب ترین کاروباری شخصیات کی صف میں شامل کرتی ہے؟ جواب ہے: ان کا ’’کچھ مختلف کرنے کا جذبہ‘‘ اور ان کی ’’انٹرپرینیورشپ‘‘صلاحیتیں۔

مسئلہ کیا ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ آج کے عالمی تعلیمی نظام میں طلبا کو اپنی سوچ کے اس جرثومے کو فروغ دے کر بڑے کاروبار میں بدلنے کیلئے مطلوبہ سپورٹ دستیاب نہیں۔ تعلیمی نصاب طلبا کو ’’اِسکل بیسڈ بزنس لرننگ‘‘ اور ’’لیڈرشپ‘‘ کے لیے تیار کرنے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ’’کلاس روم‘‘ سے لے کر ’’بورڈ روم‘‘ تک STEMکو STEEM سے تبدیل کردیا جائے۔

انٹرپرینیورشپ میں نوکری کے مواقع

ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بڑی روایتی کمپنیوں کے مقابلے میں انٹرپرینیورز نوکری کے دُگنے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انٹرپرینیورز ہی نئی مصنوعات اور خدمات کے مؤجد ہیں۔ مزید برآں یہ انٹرپرینیورز ہی ہیں جو سستی، تیز تر، زیادہ قابلِ اعتبار اوردلکش ڈیزائن کی مصنوعات اور خدمات فراہم کرنے کے نت نئے طریقے تلاش کرتے ہیں۔

یہ چین کی اپنے نوجوانوں میں ’’انٹرپرینیورل‘‘ کوششوں کی حوصلہ افزائی اور اپنے انٹرپرینیورز کی مالی اور انتظامی معاونت کا نتیجہ ہے کہ سیلیکون ویلی اسے اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔ اس کے علاوہ، چین کے انٹرپرینیورز ملک کے تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوانوں کیلئے نوکری کے مواقع پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ 

چین کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ دورِ جدید میں جو ممالک اپنے لوگوں میں انٹرپرینیورشپ کا جذبہ اور ہنر تخلیق کرنے کا بندوبست نہیں کریں گے، وہ عالمی مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے اور ہر سال جاب مارکیٹ میں آنے والے لاکھوں نوجوانوں کو ان کی اہلیت، صلاحیت، قابلیت اور ہنر کے مطابق مناسب روزگار کے مواقع فراہم نہیں کرپائیں گے۔

صنفی امتیاز کا خاتمہ ممکن

نیویارک یونیورسٹی اِسٹرن اسکول آف بزنس کی تحقیق کے مطابق، عمومی طور پر روایتی لیبر مارکیٹ میں صنفی امتیاز پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ تاہم، انٹرپرینیورشپ اعلیٰ ہنرمند افرادی قوت (جس میں خواتین بھی شامل ہیں) پیدا کرتی ہے، جو صنفی امتیاز کو ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ 

اس حقیقت کے باوجود کہ ایسی خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جو MBAاور STEM ڈگریاں رکھتی ہیں، تاہم اس کے باوجود صرف 20فیصد لیڈرشپ پوزیشنز پر خواتین براجمان ہیں۔ صرف یہی نہیں، ورلڈ اکنامک فورم کا کہنا ہے کہ موجودہ رفتار کو سامنے رکھتے ہوئے، خواتین کو مردوں کے برابر کمانے کیلئے مزید 202سال انتظار کرنا ہوگا۔

انٹرپرینیورشپ کیلئے نئےہنر

توقع ہے کہ رواں سال کے اختتام تک امریکا میں انٹرپرینیورز کی تعداد 4کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ ہمارا تعلیمی نظام اور ہمارے پالیسی لیڈرز آج کی دنیا میں ’نوکری حاصل کرنے‘ والی تعلیم کی مزید حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے کیونکہ روایتی صنعتوں اور کاروباری اداروں کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر سال اتنی تعداد میں نئی نوکریاں پیدا کرسکیں۔

STEMایجوکیشن کی اہمیت اپنی جگہ تاہم اس میں ایک اور E (انٹرپرینیورشپ) کا اضافہ کیے بغیر، دور جدید میں یہ تعلیم ادھوری ہے۔ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے، جہاں عالمی تعلیمی نظام کو اپنے طلبا کو مستقبل کی جاب مارکیٹ کے مطابق تیار کرنے کیلئے اختراع کرنا پڑے گی، بصورت دیگر یہ تعلیمی نظام جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔

تازہ ترین