• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریہ سمجھا جانے والا بھارت نریندر مودی کے دورِ حکومت میں آر ایس ایس کی فسطائی فکر کا جس بری طرح شکار ہو چکا ہے، دنیا اُسے اب بچشم سر دیکھ رہی ہے اور عالمی ضمیر میں اس صورتحال پر کسی نہ کسی درجے میں اپنی ذمہ داری کا احساس بھی ابھر رہا ہے۔ ایک ممتاز مغربی جریدے کے سرورق کا ’’عدم برداشت والا بھارت‘‘ کے الفاظ کے ساتھ شائع ہونا حالات میں رونما ہوتی اس تبدیلی کا واضح مظہر ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اسی حوالے سے اپنے ٹویٹر بیان اور غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ دنیا اب تسلیم کررہی ہے کہ مودی حکومت بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں جمہوریت مخالف فسطائی نظریات مسلط کر رہی ہے اور بھارت میں بسنے والے مسلمان مودی کی سفاک پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے بین الاقوامی برادری کو کسی لگی لپٹی کے بغیر متنبہ کیا ہے کہ ’’نریندر مودی عالمی امن کے لئے سنگین خطرہ ہیں، کشمیر بہت بڑا مسئلہ ہے، دنیا اس کو آسان نہ لے، مقبوضہ وادی میں 80لاکھ افراد محاصرے میں ہیں اور بڑا خون خرابہ ہو سکتا ہے‘‘۔ بحیثیت وزیراعظم پاکستان تنازع کشمیر کے حل کی خاطر اپنی کاوشوں کے حوالے سے انہوں نے صراحت کی ہے کہ وہ تنازع کے پُرامن حل کے لئے کوشاں ہیں مگر نہیں جانتے کہ نتائج کیا ہوں گے۔ عمران خان نے بھارت کے امن دشمن عزائم کی نشان دہی کے لئے بھارتی آرمی چیف کے اس اشتعال انگیر بیان کا ذکر بھی کیا جس میں انہوں نے بھارتی پارلیمنٹ کی قرارداد کے حوالے سے کہا تھا کہ کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے وہ بھی بھارت کا ہے اور حکم ملا تو اسے لینے کے لئے بھارتی فوج کارروائی کرے گی۔ وزیراعظم نے بتایا کہ انہوں نے مودی حکومت کی فسطائی پالیسیوں کے باعث خطے کے امن کو درپیش سنگین خطرات پر صدر ٹرمپ سے بات کی ہے اور چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے وہ اپنا کردار ادا کریں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مودی حکومت کو اس کے فسطائی عزائم سے روکنے میں سب سے مؤثر کردار امریکہ ہی ادا کر سکتا ہے اور ایسا کرنا کسی پر کوئی احسان نہیں بلکہ اپنی بین الاقوامی پوزیشن کے باعث عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لئے یہ امریکہ کی ناگزیر ذمہ داری ہے۔ امریکہ نے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان وغیرہ کے معاملات کی طرح تنازع کشمیر کے ضمن میں بھی اپنی ذمہ داری نبھائی ہوتی تو یہ مسئلہ سات دہائیوں سے معلق نہ ہوتا اور کشمیری عوام بھارت کے انسانیت سوز مظالم کا نشانہ نہ بنتے۔ بہرحال آج جب کشمیر ہی نہیں بھارت میں بھی مودی حکومت کے مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین کی شکل میں فسطائی طاقتوں نے ظلم اور بےانصافی کی تمام حدیں پار کرلی ہیں تو پوری عالمی برادری اور سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ کی جانب سے فوری مداخلت ضروری ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ جنوبی ایشیا کے دورے سے واپسی کے بعد امریکہ کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے بھارت پر مقبوضہ کشمیر میں سیاسی قیدیوں کی رہائی پر زور دیا اور مودی حکومت کے مسلم دشمن متنازع قانون پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے افغان مسئلے کے حل میں پاکستان کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے بہتر پاک امریکہ تعلقات کے راستوں کی تلاش کی بات بھی کی ہے۔ بلاشبہ امریکہ کو آج افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کے لئے پاکستان کا تعاون درکار ہے اور پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہا ہے لہٰذا ٹرمپ انتظامیہ کو بھی کشمیر کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کرنے اور بھارت کو فسطائیت کے نرغے سے نکالنے میں کسی ہیر پھیر کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہیے اور افغان امن کے ساتھ ساتھ تنازع کشمیر کے منصفانہ حل اور جنوبی ایشیا کے پائیدار استحکام کو بھی یقینی بنانا چاہئے۔

تازہ ترین