• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:عظمیٰ گل دختر جنرل (ر) حمید گل
تاریخ بھری پڑی ہے امریکہ کی بے وفایوں سے۔ جن حکمرانوں نے اس کا ساتھ دیا، اس کے برتے حکومت بنائی، انہیں ضرورت ختم ہونے پرتاریخ کے کوڑے دان کی نظر کر دیا گیا۔ جب آقا کا دل بھر گیا یا ضرورت ختم ہوئی پھر ایسے حکمرانوں کا حشر دنیا نے دیکھا۔ باوجود غلامی، ان کا عرصۂ حکومت دس گیارہ سال سے زیادہ نہیں۔ مگر جو امریکہ کے آگے کھڑے ہو گئے اور ڈٹ گئے ان کا انجام کیسا ہی ہوا ہو مگر ان کے دورِ حکومت چالیس سے پچاس سال تک بھی ہیں۔ جہاں امریکہ کا مفاد ہو یا وہ کسی سے خائف ہو اس سے بڑھ کر خوشامد کوئی نہیں کر سکتا۔ فرش سے عرش پر لے جانے میں اور عرش سے فرش پر لانے میں ذرہ برابر دیر نہیں کرتا۔ حکمران امریکہ بہادر کے آگے اپنی حکومت کی جاودانی کے لیے گھٹنے ٹیک کر خود کو مضبوط اور ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔امریکہ ایسا شطرنج کا کھلاڑی ہے جو اوپر بیٹھ کر پیادے سے بادشاہ کو اور گھوڑے سے وزیر کو مروا دیتا ہے اور یہ سب کچھ خاموشی سے اور غیر جذباتی انداز میں کرتا ہے۔ اس کے مفادات کی راہ میں کوئی اصول، انصاف یا انسانیت آڑے نہیں آ سکتی۔ امریکہ کی حکومتیں اپنے عوام کے لئے جمہوریت اور حقوقِ انسانیت کی بہت باتیں کرتی ہیں مگر در حقیقت وہ اپنی ہی قوم کو سب سے زیادہ دھوکا دیتی ہیں۔ قوم سے جھوٹ بول کر پراپیگنڈہ کے ذریعے خوفزدہ کر کے، انہی کے ٹیکس کی آمدن کو خیالی دشمنوں سے لڑائی پر لگا دیتی ہیں۔ ان کے بڑے بڑے ادارے جیسے امریکی محکمہ دفاع، پینٹاگون، سی آئی اے، ہوم لینڈ سیکیورٹی وغیرہ سب ہی کی "دال روٹی" سادہ لوح عوام کے ٹیکسیوں کے دَم پر چل رہی ہے۔ اتنے شاہانہ اخراجات جو وہ اپنی فوج پر کرتے ہیں اس کے باوجود انہیں کہیں بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ مہنگے ہتھیاروں اور جنگی سازو سامان، بے پناہ سہولیات نے انکے فوجیوں کو نازک بنا دیا ہے۔ گرمی ان سے برداشت نہیں ہوتی اور سردی میں وہ کام نہیں کر سکتے۔ اب وہ صرف ہالی ووڈ کی فلموں میں ہی اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے ہیں۔ اپنی جعلی برتری کا رعب انہوں نے پوری دنیا میں بیٹھا دیا ہے جبکہ اگر حقیقت کے عینک پہن کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ویت نام، صومالیہ، عراق، افغانستان میں نہتے عوام اور واجبی اسلحہ سے لیس فوجی ان کے مدِمقابل تھے۔ جبکہ وہ جنگی جہازوں کی بے دریغ بمباری اور انتہائی تباہ کن ہتھیاروں سے بھی ان قوموں کو شکست نہ دے سکے۔ وہ اس بھول میں ہیں کہ ٹیکنالوجی سے وہ ہر جنگ جیت سکتے ہیں۔ ان کو اندازہ ہی نہیں ایمان کی طاقت کا، نہ ہی ان کو ادراک ہے کہ جب قومیں ڈٹ جائیں تو ٹیکنالوجی، جذبے کے آگے ہیچ ہے۔ امریکہ پہلے قوموں پر پابندیاں لگا کر انہیں کمزور کرتا ہے پھر نہتا کر کے، دھوکے سے گرا کر وار کرتا ہے۔ کمزور، ناتواں اور نہتے کا بازو مروڑ کر فتح کے نعرے لگانے والے دراصل اندر سے بہت کمزور اور بزدل ہیں۔ امریکہ نے تقریباً 30 سے زائد ممالک پر کسی نہ کسی طرح کی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ ان کو اپنی ٹیکنالوجی پر مان اور ہمیں اپنے ایمان پر بھروسہ ہے۔ اگر آج ان کی اونچائی سے بمباری کرنے کی صلاحیت کا توڑ کر لیا جائے تو ان کا تکبر خاک میں مل جائے گا۔ باقی رہی انکی زمینی فوج تو صرف اپنی حفاظت اور اپنی حفاظت کے سازو سامان کی حفاظت ہی کر سکتی ہے۔ ایک بے ہنگم، اپنی عمر سے بڑے بچے کی طرح، قابو سے باہر، ہر اصول سے بے پروا، کسی لحاظ سے عاری رویے کو، کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ بعینی ایسے ہی اپنی بات پر قائم نہ رہنا، انسانیت کا احساس نہ کرنا، حکومتوں کی خود مختاری کا احترام نہ کرنا، خائف تو کر سکتا ہے مگر اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔آج کل یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ جنگ نقصان دہ ہوتی ہے۔ ہم معاشی طور پر جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے لیڈر بھی یہی کہتے ہیں کہ معاشی طور پر مستحکم ہو، ترقی کرو، نوکریاں لو اور جب سب کچھ حاصل ہو جائے تو جنگ کا سوچو۔ یہ کیسی عجیب منطق ہے؟ کیا قومیں بھی کبھی معاملات ٹالنے اور بے غیرتی کا راستہ اپنانے سے بنتی ہیں؟ کیا معیشت مضبوط کرنے سے آج جاپان اپنی حفاظت کر سکتا ہے؟ کیا عرب ممالک جن کی معیشت ہم سے مضبوط ہے اپنا دفاع کر سکتے ہیں؟ سب غلط! یہ قوم کو غلط راستے پر ڈالنے کی سازش ہے۔ ہماری جوہری صلاحیت ختم کر کے، ہمیں ناتواں کر کے، بازو مروڑ کر، ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں، زمین پر گرانے کا پروگرام ہے۔ سازش ہے کہ "موذی" اور آر ایس ایس کے ذریعے امریکہ ہمیں غلام بنا لے۔ آج مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے مسلمان زیرِ عتاب ہیں، آزاد کشمیر زیرِ نظر اور پاکستان تو پہلے ہی سے نشانے پر ہے۔ ہماری جوہری صلاحیت اور جذبۂ جہاد ہندوستان کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم متحد اور یکسو ہو۔ اپنے اندر چھپے ہوئے عناصر جو ہمیں خوفزدہ کر کے دشمن کے آگے ڈھیر کرنا چاہتے ہیں، انہیں پہچانے۔ دشمن ہمارے دروازے پر کھڑا ہمیں للکار رہا ہے مگر ہم آج بھی امریکہ سے ثالثی کے متوقع ہیں۔ وزیر اعظم امریکی صدر کی جانب سے اپنے لئے باندھے گئے تعریفوں کے پل کو ورلڈ کپ جیتنے کی طرح سمجھتے ہیں۔ در حقیقت یہ ورلڈ کپ "موذی" نے جیتا ہے جبکہ ہم تو امریکہ میں کشمیر ہار آئے۔ یاد کریں کیسے ثالثی کا جھانسا دے کر امریکہ پیچھے ہٹ گیا؟ کیسے "موذی" کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، جلسے میں امریکی صدر نے اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے؟ ہم ایک بار پھر دھوکا کھا گئے اور امریکہ کے اشارے پر ہندوستان نے دفعہ 370 کا کام تمام کر دیا۔ آج بھی کچھ خوش فہم مصر ہیں کہ ہندوستان کی موجودہ بدامنی، احتجاج اور ہنگامے جو بوجہ شہریت بل ہو رہے ہیں، اس کا سہرا ہماری حکومت کی کامیاب حکمتِ عملی کے سر ہے۔ کونسی حکمتِ عملی؟ یقین نہیں آتا کہ ہم کن احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ ہماری تو اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ کیسے نکل سکتا تھا؟ اقوام متحدہ تو امریکہ کا طفیلی ہے۔ اس ہی کی آڑ میں مسلمانوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ امریکی کسی کے
نہیں، وہ ہمیشہ سے اپنے مفادات کے ہیں۔ جس دن ہماری جوہری صلاحیت خدا ناخواستہ ختم ہوئی، افغانستان کا معاملہ حل ہوا اور جہادی تنظیمیں تتربتر ہوئیں، امریکہ کو ہماری ضرورت نہ رہے گی۔ خطے میں وہ اپنا اور اسرائیل کا سب سے بڑا "خدمت گزار" ہندوستان بطور "پولیس مین" چھوڑنا چاہتا ہے۔ اس سب میں ہماری جوہری صلاحیت اور ہمارا جذبۂ جہاد بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کو فہم و فراست سے صحیح حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے جرأتمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے اور صراط مستقیم کا راستہ اپنانا ہو گا۔ حق کا راستہ، پیچ و خم سے پاک۔ اسی میں ہماری بقا و نجات ہے۔
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
jksmovement@gmail.com
تازہ ترین