اقوامِ متّحدہ کی سلامتی کائونسل کے پلیٹ فارم پر کشمیر تاحال ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ یاد رہے کہ جنوری 1948ء میں پہلی مرتبہ سلامتی کائونسل میں مسئلہ کشمیر کی شنوائی ہوئی اور اس سلسلے میں ابتدائی قرار دادیں پاکستان و بھارت سے پُرامن رہنے اور سلامتی کائونسل سے تعاون کی اپیل پر مبنی ہیں۔ نیز، سلامتی کائونسل نے ایک قرار داد کے ذریعے کمیشن بھی قائم کیا، جسے ’’اقوامِ متّحدہ کمیشن برائے پاکستان و بھارت‘‘ کا نام دیا گیا۔ مذکورہ کمیشن نے پاکستان و بھارت اور ریاستِ کشمیر کے دورے کیے۔ کمیشن نے دونوں ممالک کے نمایندوں سے بات چیت اور کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد 13اگست 1948ء کو کشمیر پر اپنی پہلی تفصیلی قرارداد منظور کی، جسے تین حصّوں میں تقسیم کیا گیا۔
قرار داد کا پہلا حصّہ جنگ بندی سے متعلق تھا، دوسرے حصّے میں جنگ بندی کے معاہدے اور افواج کی واپسی کے طریقۂ کار پر غور کیا گیا، جب کہ تیسرا حصّہ استصوابِ رائے کے انعقاد سے متعلق تھا۔ کمیشن قرار داد کے پہلے حصّے یعنی جنگ بندی پر عمل درآمد کروانے میں کام یاب رہا اور پاکستان و بھارت یکم جنوری 1949ء سے کشمیر میں جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے۔ اس ضمن میں کمیشن کی جانب سے 5جنوری 1949ء کو دوسری تفصیلی قرار داد منظور کی گئی، جس میں آزادانہ استصوابِ رائے کے انعقاد پر بحث کے علاوہ ناظمِ رائے شماری کے تقرّر و اختیارات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
کمیشن کی قرار دادوں کی رُو سے آزادانہ رائے شماری کے لیے پہلے قرار داد کے ابتدائی دو حصّوں یعنی جنگ بندی اور افواج کی واپسی پر عمل درآمد یقینی بنانا ضروری تھی۔ گرچہ جنگ بندی کے بعد دونوں ممالک کی رضامندی سے امریکا کے ایڈمرل نمٹز کو ناظمِ رائے شماری مقرّر کر دیا گیا، لیکن قرار داد کے دوسرے حصّے یعنی جنگ بندی کے بعد افواج کی واپسی کے طریقۂ کار پر بھارت کو آمادہ نہیں کیا جا سکا۔
نتیجتاً، قرار داد کے تیسرے حصّے پر بھی عمل نہ ہو سکا اور رائے شماری کا عمل تعطّل کا شکار ہو گیا۔ کمیشن کی اس ناکامی پر دسمبر 1949ء میں سلامتی کائونسل کے صدر، جنرل میک ناٹن نے تصفیے کی کوششیں شروع کیں۔ 1950ء میں آسٹریلیا کی ہائی کورٹ کے جج، سر اوون ڈکسن کو اقوامِ متّحدہ کے نمایندے کی حیثیت سے برِ صغیر بھیجا گیا اور ان کی واپسی پر 1951ء میں امریکا کے ڈاکٹر فرینک گراہم اقوامِ متّحدہ کے نمایندے مقرّر ہوئے۔ انہوں نے دو برس تک یہ ذمّے داری نبھائی اور کشمیر سے افواج کی واپسی سے متعلق مختلف تجاویز پیش کیں، لیکن ان کی کوششیں بھی رائیگاں گئیں۔ چوں کہ بھارت مقبوضہ جمّوں و کشمیر کو کسی بھی فورم پر زیرِ بحث لانے کا روادار نہ تھا، لہٰذا نہ صرف کمیشن اور مقرّر کیے گئے نمایندوں کی کوششیں کام یاب نہ ہونے دی گئیں، بلکہ اس دوران ثالثی کی تمام پیشکشیں بھی مسترد کی گئیں۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں رہی کہ بھارت اپنے زیرِ قبضہ خطّے جمّوں و کشمیر کی صورتِ حال جوں کی توں رکھنا چاہتا ہے، لیکن اقوامِ متّحدہ کی قرار دادوں کی صُورت اس راہ میں ایک بڑی رُکاوٹ حائل ہے۔ بھارت نے مختلف اوقات میں ان قرار دادوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی اور 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے بعد پاکستان و بھارت کے درمیان کیے گئے معاہدوں کے مندرجات بھارت کے لیے فرار کی سبیل بن گئے۔
گرچہ پاکستان اس تاثر کو مسترد کرتا ہے کہ تاشقند اور شملہ معاہدوں سے سلامتی کائونسل میں کیے گئے عہد و پیمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا، تاہم بھارت بالخصوص شملہ معاہدے کا حوالہ دے کر مسئلہ کشمیر کے حل کی عالمی کوششوں کو نقصان پہنچاتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے معروف بیورو کریٹ / ادیب، قدرت اللہ شہاب نے تاشقند مذاکرات سے قبل صدر ایّوب خان کو ہالینڈ سے بھیجے گئے ایک خفیہ تار میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’تنازعۂ کشمیر کی اصل عدالت یو این او کی سیکوریٹی کائونسل رہی ہے، وہیں پر تمام بحث مباحثے ہوئے ہیں اور وہیں پر سب قرار دادیں منظور ہوئی ہیں، جو تمام ہمارے حق میں ہیں۔
ہمارے مفادات کا تقاضا ہے کہ ہم یہ مقدّمہ اسی عدالت میں قائم رہنے دیں۔ اگر ایک بار یہ معاملہ کسی اور فورم مثلاً تاشقند میں منتقل ہو گیا، تو اس کی نوعیت بالکل بدل جائے گی۔ سیکوریٹی کائونسل کی تمام پچھلی قرار دادیں متروک الاستعمال ہو جائیں گی اور رفتہ رفتہ فرسودگی اور دقیانوسیت کی گرد میں دب کر عملاً منسوخ اور کالعدم سمجھی جائیں گی۔ مستقبل میں ہمارے پاس کشمیر کی بابت صرف وہی حوالہ باقی رہ جائے گا، جو مذاکراتِ تاشقند فراہم کریں گے۔‘‘ (شہاب نامہ)
بعد ازاں، قدرت اللہ شہاب کا یہ خدشہ دُرست ثابت ہوا اور اب جب بھی مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر موضوعِ بحث بنتا ہے، تو بھارت یہ مؤقف اپنا کر قرار دادوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے اور اس تنازعے میں بیرونی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بھارت نے اپنے اس دعوے کے مطابق کبھی مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور اگر اس بابت مذاکرات ہوئے بھی، تو محض وقت گزاری کے لیے۔
5اگست 2019ء کو جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا، تو امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش کی، جسے بھارتی وزیرِ خارجہ، ایس جے شنکر نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ”اگر کشمیر کے معاملے پر کبھی بات ہوئی، تو وہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی ہوگی۔‘‘ تاہم، بھارت کی اس ہٹ دھرمی کو اُس وقت شدید دھچکا لگا کہ جب 16اگست 2019ء کو پاکستان کی درخواست پر سلامتی کائونسل نے ایک غیر رسمی اجلاس کا اہتمام کیا، جس میں کشمیر کی نازک صورتِ حال اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر اقوامِ متّحدہ میں چین کے مستقل مندوب، ژینک جون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”مسئلہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے، جو اقوامِ متّحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے خطّے میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ ہندوستان کا یک طرفہ اقدام کشیدہ صورتِ حال کو مزید خراب کرسکتا ہے۔‘‘ اس موقعے پر پاکستان کی مستقل مندوب، ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ ”سلامتی کائونسل کے اجلاس سے ثابت ہو گیا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں۔ اجلاس نے بھارتی حکومتوں کے اکھنڈ بھارت کے دعوؤں کو مستردکر دیا۔‘‘ دوسری جانب بھارت کے مستقل مندوب، سیّد اکبر الدّین نے کہا کہ ”عالمی اداروں کو بھارت کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم نے زندگی کیسے گزارنی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ’’معقول قسم‘‘ کی پابندیاں لگائی گئی ہیں، جنہیں نرم کیا جا رہا ہے۔‘‘
بعد ازاں، 15جنوری کو سلامتی کائونسل نے گزشتہ پانچ ماہ میں دوسری مرتبہ کشمیر پر بند کمرا اجلاس منعقد کیا۔ اس موقعے پر پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’اقوامِ متّحدہ کے مبصّرین نے کشمیر کی صورتِ حال پر سلامتی کائونسل کو بریفنگ دی ہے۔ کئی ممالک نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مزید کشیدگی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔‘‘ دوسری جانب بھارت کے مستقل مندوب، سیّد اکبر الدّین نے دعویٰ کیا کہ ’’پاکستان نے مسئلہ کشمیر اُٹھانے کی کوشش کی، لیکن کسی نے اُس کی حمایت نہیں کی۔‘‘
انہوں نے اس سے قبل یہ کہا تھا کہ ”آرٹیکل 370کے حوالے سے اُٹھایا گیا قدم بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور کشمیر کے حوالے سے تمام مسائل شملہ معاہدے کے تحت ہی حل کیے جائیں گے۔‘‘ کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینا شرم ناک اور افسوس ناک عمل ہے۔ بھارت جس شملہ معاہدے کا حوالہ دے کر فرار کی کوشش کر رہا ہے، اس میں یہ بھی درج ہے کہ ”تنازعات کے قطعی تصفیے تک کوئی بھی فریق یک طرفہ طور پر صورتِ حال میں تبدیلی کا مجاز نہیں ہو گا۔‘‘ گویا کہ بھارت اقوامِ متّحدہ کی قرار دادوں کے علاوہ دو طرفہ معاہدوں کی پاس داری بھی نہیں کر رہا، لیکن اس کے باوجود دُنیا کے سامنے جُھوٹ و فریب کی بنیاد پر اپنے بیانیے کو سہارا دے رہا ہے۔
آج مقبوضہ کشمیر میں کُھلے عام انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جا ری ہیں اور دوسری جانب بھارت کے آرمی چیف، بپن راوت آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود سلامتی کائونسل محض اظہارِ تشویش تک محدود ہے۔ یاد رہے، اقوامِ متّحدہ کی ذمّے داری محض اظہارِ تشویش یا اظہارِ مذمّت نہیں۔ اس ادارے کو مصالحانہ کردار ادا کرنے کی بجائے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیےٹھوس و مؤثر اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ وگرنہ کشمیریوں کے لیے اس ادارے کا وجود اور عدم وجود دونوں مساوی ہیں۔