• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٓاس شخص کی کئی ادائیں مجھے بہت پسند آئیں۔ اس کی سب سے پہلی ادا تو یہ تھی کہ وہ ایک رئیس اور دولت مند شخص ہے یہ ایسی ادا ہے جو عام طور پر سبھی لوگوں کو پسند آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر انسان صبح سے شام تک دولت کمانے اور دولت بڑھانے میں مصروف ہے۔ اس کی دوسری ادا جو مجھے بھا گئی وہ یہ تھی کہ اس نے فون کرکے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور گھر آنے کا وقت مانگا ورنہ دولت مند لوگ دولت کے زور پر لوگوں کو اپنے گھر بلانے کے عادی ہوتے ہیں۔ تیسری ادا جو مجھے اچھی لگی وہ یہ کہ وہ کسی کسر نفسی یا مروت کا قائل نہیں، وہ ببانگ دہل بلا تکلف دولت کی شیخی بگھارتا اور روزانہ آمدنی کے قصے سناتا ہے۔
وقت مقررہ پر وہ نئی نویلی سیاہ مرسیڈیز پر تشریف لائے اور سادہ چائے کی پیالی پر چند لمحوں میں یوں بے تکلف ہو کر گھل مل گئے جیسے ہم پرانے دوست ہوں۔ ان کے آنے سے قبل میں نے اپنے ملازم سے کہہ رکھا تھا کہ جب وہ تشریف لائیں تو سادہ یعنی ”سوکھی“ چائے کی دو پیالیاں لے آئے۔ بسکٹ، کیک وغیرہ لانے کی ضرورت نہیں چونکہ دولت مند لوگ شوگر کی چلتی پھرتی فیکٹریاں ہوتے ہیں اور انہیں شوگر کے علاوہ بھی کئی امراض کا تحفہ ملا ہوتا ہے اس لئے ان پر کھانے پینے کے حوالے سے بے پناہ پابندیاں ہوتی ہیں۔ میری اس سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے بھی علم نہیں تھا کہ وہ بڑے بڑے لوگوں کی موجودگی میں مجھ فقیر کے پاس کیوں آنا چاہتے ہیں۔ ایسی ملاقاتوں میں دولت کا اشتہار دینا ضروری ہوتا ہے چنانچہ اس عظیم مقصد کے لئے انہوں نے یہ واقعہ گھڑا۔ علیک سلیک کے بعد ٹانگیں دراز کرتے ہوئے فرمانے لگے میں چند روز قبل فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین سے ملنے گیا۔ 11بجے کا وقت طے تھا لیکن مجھے چیئرمین سے ملنے کے لئے نصف گھنٹہ انتظار کرنا پڑا جب ملاقات ہوئی تو میں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے کہا جناب چیئرمین صاحب میری روزانہ آمدنی ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہے ۔ آپ نے مجھے آدھ گھنٹہ انتظار کروا کر میرا قیمتی وقت ضائع کیا ہے دراصل یہ قصہ سنانے کا مقصد مجھے یہ بتانا تھا کہ میں 30کروڑ روپے ماہانہ کی ”آسامی“ہوں۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا کہ صاحب آپ اتنے روپوں کا کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے حسب روایت سمجھا کہ یہ چڑا میرے سونے کے پنجرے میں پھنس گیا ہے۔ وہ احساس تفاخر یا گھمنڈ سے مسکرا کر بولے ”ابھی بتاتا ہوں، یہی ڈسکس کرنے تو آیا ہوں“۔ میں نے موقعہ غنیمت جانا اور فقرے کا تیر چلا دیا۔ عرض کیا حضور !آپ کی دولت آپ کو مبارک۔ میں نہ اس میں حصے دار ہوں اور نہ ہی مجھے اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ میں تو صرف آپ کے اخلاق میں حصہ دار ہوں اور مجھے صرف آپ کا اخلاق ہی متاثر Effectکرسکتا ہے۔ وہ جھینپے بغیر بولے ڈاکٹر صاحب میرا اخلاق بہت اچھا ہے۔ سارا جہان میرے اخلاق کی تعریف کرتا ہے۔ میں نے جواباً ماشا اللہ کہا اور پوچھا کہ فرمایئے آپ میرے پاس کیسے تشریف لائے۔ وہ قدرے سنجیدہ ہوئے اور کہنے لگے ڈاکٹر صاحب اللہ نے بے پناہ دولت دی ہے۔ اب میرا جی چاہتا ہے کہ معاشرے میں عزت بھی کماؤں اور اہمیت بھی حاصل کروں۔ میں نے فوراً عرض کیا کہ جناب والا یہ کام بڑا آسان ہے۔ آپ اپنی دولت کا کچھ حصہ معاشرے کی بھلائی کے لئے وقف کردیں۔ بیواؤں، یتمیوں اور معذور حضرات کی مالی مدد کا انتظام کریں، غریب طالب علموں کو وظیفے دیں، غریبوں کے مفت علاج کے لئے ہسپتال بنائیں۔ اس سے اللہ بھی خوش ہوگا، آپ کی آخرت بھی سنورے گی اور جوں جوں آپ کی خدمت کی خوشبو پھیلے گی۔ آپ لوگوں کے دلوں میں احترام بھی کمائیں گے اور معاشرے میں اہمیت بھی پائیں گے۔ میری بات سن کر ان کے ماتھے پر ایک چھوٹی سی تیوری ابھری۔ کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب انشاء اللہ یہ کام بھی کروں گا لیکن فی الحال میرے دل میں ایک اور خواہش تڑپ رہی ہے میں چاہتا ہوں اسے پورا کرلوں پھر خدمت کی طرف آؤں گا۔ ویسے میرے دل میں جو خواہش ہے وہ بھی خدمت ہی ہے لیکن یہ خدمت ذرا اور طرح کی ہے۔ اس میں مجھے آپ کا مشورہ درکار ہے۔ آپ نے حکومتوں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو طویل عرصے تک اندر باہر سے دیکھا ہے اور ہماری آنکھوں کے سامنے ایک آدھ غیر معروف کو سیاستدان بنایا بھی ہے اس لئے میں آپ کے پاس مشورے کے لئے آیا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب! مجھے اللہ نے دولت بہت دی ہے، اب جی چاہتا ہے کہ اہمیت حاصل کرنے کے لئے سیاست میں آؤں اور اسمبلی کا الیکشن لڑ کر کسی چھوٹی موٹی وزارت کے لئے ہاتھ پاؤں ماروں۔ پھر انشاء اللہ آپ کی خواہش پوری کروں گا اور خدمت کا منصوبہ بناؤں گا۔ میں نے مشورہ دینے کے انداز میں پوچھا کیا آپ کا تعلق کسی پارٹی سے ہے؟ بولے بڑی پارٹیاں کئی برسوں سے چندے لیتی رہتی ہیں لیکن میں کسی پارٹی کا رکن نہیں۔ میرا دوسرا سوال تھا کہ آپ کس پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں اور کیا آپ کو اس کا ٹکٹ مل جائے گا؟ انہوں نے ایک مقبول پارٹی کا نام لیا اور کہا کہ ٹکٹ لینا مشکل کام نہیں۔ دولت سے ہر شے خریدی جا سکتی ہے۔ میں پارٹی لیڈر کو دو چار کروڑ روپے چندہ دوں گا، اس کی تھوڑی سی خوشامد کروں گا، اس کے تین چار بااثر حواریوں اور پارٹی لیڈروں کو الیکشن لڑنے کے لئے دو دو کروڑ روپے دوں گا۔ وہ میرے سفارشی بن جائیں گے یوں ”انشاء اللہ“ ٹکٹ مل جائے گا۔ میں نے ان کے منصوبے کی کامیابی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ چلئے ٹکٹ مل گیا۔ ٹکٹ کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ آپ الیکشن کیسے جیتیں گے؟ ان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔ ڈاکٹر صاحب! میں بزنس مین ہوں۔ میں ہر کام منصوبے کے تحت کرتا ہوں، خیالی پلاؤ نہیں پکاتا۔ ٹکٹ لینے کے بعد ایک میڈیا سیل بناؤں گا جس میں چند ایک اہل صحافی بھرتی کروں گا۔ ان کو کروڑوں کا بجٹ دوں گا۔ وہ ہرروز اخبارات میں میری خبریں بنا کر چھپوائیں گے اور میری شان میں کالم لکھیں گے۔ میں اپنے حلقے میں گھس جاؤں گا۔ غریب ووٹروں کوفی ووٹ بیس ہزارروپے امدادکے نام پر دوں گا، ان کے ووٹ پکے ہوجائیں گے۔ چند غنڈے ”ہائر“ کروں گا جوگلی کوچوں میں میری انتخابی مہم چلائیں گے اورہر شام علاقے میں میرے نعرے لگائیں گے۔میرے اتنے وسائل ہیں کہ اپنے حلقے کے چند سو بیکار نوجوانوں کو اپنے کاروبار اور فیکٹریوں میں ملازمت دے سکوں۔ پڑھے لکھے بیکاروں کو بنکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازم کروا سکوں۔“ وہ ایک لمحے کے لئے رکے اور کہنے لگے ”ڈاکٹرصاحب ! میں نے الیکشن جیتنے کے لئے ایک موثر منصوبہ بنایا ہے جس کی آپ کوصرف جھلک دکھائی ہے۔ آپ اس کا فکر نہ کریں۔ دولت کی فراوانی ہو تو الیکشن جیتنا کوئی مشکل کام نہیں۔ دولت ہو تو حکومت ِ وقت کی مدد حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے اور بیوروکریسی کی مدد سے لوگوں کے کام کروانے سے رکاوٹیں ہٹ جاتی ہیں۔ میں ساری زندگی لوگوں کو خریدتارہا ہوں اور اس فن میں ماہر ہو چکا ہوں۔ آپ جیسے دانشورسمجھتے ہیں کہ ہماری جمہوریت کا حسن جمہور یعنی عوام ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہماری جمہوریت کا اصل حسن دولت ہے۔ ہم جتنا الیکشن میں لگائیں گے اس سے کئی گنااس سے کمائیں گے ۔“
یوں دلائل کے سمندر کو کوزے میں بند کرکے وہ اٹھے۔ مجھ سے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور یہ کہہ کررخصت ہوگئے کہ ”آپ صرف دعا کیجئے گا باقی کام میں سنبھال لوں گا“ وہ صاحب چلے گئے اورمجھے اس فقرے کے سحر میں مبتلا کر گئے کہ” آپ جیسے دانشورسمجھتے ہیں کہ جمہوریت کاحسن جمہور ہوتاہے۔ ہماری جمہوریت کا اصل حسن دولت ہے۔ ہم جتنا الیکشن میں لگائیں گے اس سے کئی گنا اس سے کمائیں گے۔“
تازہ ترین