• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی حقیقی ترقی تو اگرچہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ قومی معیشت مجموعی طور پر بہتر ہو، روزگار کے نئے مواقع مہیا کرنے کے لیے نئی صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے، زراعت کے جدید طریقے استعمال کرکے زرعی پیداوار بڑھائی جائے، برآمدات میں اضافے کے ذریعے تجارت کا توازن درست کیا جائے اور یوں حقیقی قومی آمدنی بڑھائی جائے۔ تاہم پاکستان کی موجودہ حکومت کے ابتدائی ڈیڑھ برسوں میں ایسا نہیں ہو سکا جس کی وجہ موجودہ حکمرانوں کے بقول پچھلی حکومتوں کی غلطیاں ہیں۔ اسی بنا پر معیشت کی اصلاح کے لیے شرحِ سود میں اضافے اور ملکی کرنسی کی قدر میں کمی جیسے اقدامات کرنا پڑے ہیں جبکہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ ٹیکس نیٹ بڑھا کر اور نئے ٹیکس لگا کر حکومت کی آمدنی اور خرچ کے فرق کو کم کرنے کے بھی اب تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے حکومت مسلسل نئے قرضے لے رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں گزشتہ روز جمع کرائے گئے وزارت خزانہ کے ڈیٹ پالیسی اسٹیٹمنٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ 15ماہ کے عرصے میں پاکستان کے سرکاری قرض و واجبات میں 40فیصد اضافہ ہو گیا ہے جو بڑے پیمانے پر قرضوں کے حصول کی حد سے تجاوز اور فسکل ریسپانسبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ (ایف آر ڈی ایل ایکٹ) کی خلاف ورزی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2018ء کے اختتام پر مجموعی قرض اور واجبات 290کھرب 87ارب 90کروڑ روپے تھے جو ستمبر 2019ء تک 410کھرب 48ارب 90کروڑ روپے سے تجاوز کر گئے یعنی اس میں 39فیصد یا 110کھرب 60ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ مالی سال 2019ء کے اختتام تک مجموعی قرض اور واجبات میں 35فیصد یا 100کھرب 34ارب 40کروڑ روپے کا اضافہ ہوا اور یہ 402کھرب 23ارب 30کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ حالات کا اس حد تک پہنچنا ناگزیر تھا یا بہتر معاشی حکمتِ عملی اپنا کر اس سے بچا جاسکتا تھا؟ حکومتی ٹیم کی جانب سے اس سوال پر ملک کے ممتاز ماہرین معیشت سے مشاورت کی جانی چاہیے اور پارلیمنٹ کو بھی معاملات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافے سے ملک کو بچانے کی تدابیر تلاش کرنی چاہئیں۔ تاہم ان حالات کے سبب بیروزگاری اور مہنگائی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس نے کم آمدنی والے ہی نہیں بالائی متوسط طبقات تک کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ دشوار بنا دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے انتہائی غریب طبقات کی مشکلات میں کسی حد تک کمی کے لیے ’’احساس‘‘ کے تحت گزشتہ روز 2کھرب روپے کی لاگت سے ملک کے سب سے بڑے فلاحی پروگرام کا آغاز کرکے بلاشبہ ایک مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ پروگرام کے تحت ملک کی 70لاکھ مستحق خواتین کو کفالت کارڈ کے ذریعے ماہانہ 2ہزار روپے کا مالی تعاون فراہم کیا جائے گا۔ یہ رقم بینظیر انکم سپورٹ کے مقابلے میں دگنی ہے۔ وزیراعظم کی یہ وضاحت اطمینان بخش ہے کہ یہ رقوم جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے براہِ راست مستحقین تک پہنچیں گی اور اس نظام میں ماضی کی طرح دھاندلی کی گنجائش نہیں ہوگی۔ مستحق خواتین کو معاشی سرگرمی کا حصہ بنانے کے لیے گائے بھینسیں بھی فراہم کی جائیں گی اور کفالت کارڈ پر یوٹیلٹی اسٹوروں سے راشن بھی دیا جائے گا۔ غریب گھرانوں کے بچوں کو تعلیمی وظائف دیے جانے کا اعلان بھی وزیراعظم کی جانب سے کیا گیا ہے۔ یہ اقدامات غریب گھرانوں کے مسائل کے حل میں ایک حد تک ضرور مؤثر ثابت ہوں گے لیکن ملک کی مستقل بنیادوں پر ترقی اور عوام کی پائیدار خوشحالی کے لیے قومی معیشت کی مجموعی بہتری بہرحال ناگزیر ہے اور اس سمت میں جلد از جلد نتیجہ خیز اقدامات وقت کا لازمی تقاضا ہیں۔ اصلاحات کے حکومتی دعوے مثبت نتائج دینے پر ہی معتبر قرار پائیں گے۔

تازہ ترین