• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

.

مشکل ہے بہت مشکل مہنگائی کا وداع ہونا

دو باتیں مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہیں، ایک تو نواز شریف کی رپورٹوں کا کافی ہونا دوسرے مہنگائی کا اب اس وطن عزیز سے جدا ہونا، گویا ریاضی کے اس جمع تفریق کے سوال کا جواب یہ ہے کہ کوئی تو مائنس ہو۔ بہرحال نہ جانے کیا کچھ کہہ گئے مذاق ہی مذاق میں، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ ہم اگر ’’کوئی‘‘ برا نہ مانے تو بس اتنی گزارش ہے کہ غریب عوام کو ایمرجنسی وارڈ لا کر انہیں فوری فرسٹ ایڈ دی جائے تاکہ 72سالہ مہنگائی مظالم سے کچھ تو افاقہ ہو۔ ابھی پانچ سال ریلیف دینے میں گزاریں بڑا آپریشن بعد میں کر لینا، حکمرانوں کی کارکردگی کی طبی رپورٹیں بھی ناکافی ہیں وزیر صحت صاحبہ کچھ اس بارے بھی بات کریں۔ ایک مہنگائی زدہ ملا، اس کے ہاں انہی دنوں بیٹی پیدا ہوئی، پوچھنے لگا یار کوئی اچھا سا نام تجویز کرو، بے ساختہ عرض کیا دیر کس بات کی مہنگائی بانو رکھ دو، کیونکہ مہنگائی ہی اس کی پیدائش کی شانِ نزول ہے۔ اس نے کہا اگر خوشحالی آگئی تو یہ نام آئوٹ آف کانٹیکسٹ نہیں ہو جائے گا، گزارش کی پھر اس کا نام بدل کر خوشحال بیگم رکھ دیں گے۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم نے ہماری تسلی کے لئے کہہ دیا کہ ایک تم ہی نہیں تنہا، میرا بھی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا، وزیر اعلیٰ پنجاب نے کیا اچھی نصیحت فرمائی ہے کہ وزرا، افسران اپنی توانائی عوام کی بہتری و خوشحالی پر صرف کر دیں۔ جب توانائی چولہوں سے تنوروں اور ہاتھوں سے جیبوں تک موجود نہیں وہ کیا آسمانی بجلی سے توانائی لے کر عوام کالانعام میں بانٹیں گے۔ وزیر اعظم سدا سکھی رہیں ان سے اور کیا کہہ سکتے ہیں ؎

اب کیا مثال دیں ترے گزرے شباب کی

لانا پڑے گا اور کسی کو جواب میں

سی ایم سے پچھلے ہفتے کے کالم میں کہا تھا کہ میری گلی میں ایک ہوائی فائرنگ کرنے والے کو ہی روک دیں، مجھ سے غلطی ہوئی کہ اسے ایک بار روک بیٹھا اب وہ ہر شام کو فائرنگ کرتا ہے، نہیں تو مجھے اپنی حفاظت کے لئے کوئی زمزمہ توپ ہی دیدیں۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

پچھتا رہا ہوں میں، کبھی اِس کُو میں کبھی اُس کُو میں

شہر میں ایک حلقہ یاراں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والوں کو عشائیہ دینے کا اہتمام کیا، زمزم کی ایک شیشی میں بہت سا پانی اور حرم کی کھجوروں میں پاکستانی کھجور ملا کر ان کی تواضح کی گئی، پھر مجلس تبرا برپا ہوئی، پچھتاوں کی دھند نے محفل کو اپنی چادر میں لپیٹ لیا، مگر گرمی ٔ گفتار کو ہرگز ٹھنڈ نہ لگی، ہر عاشق ’’خان‘‘ نے ’’خوبیوں‘‘ کے انبار لگا دیئے، اس مجلس شام مہنگائی زدگان میں کچھ خوباں بھی تھے، انہوں نے بھی اپنے حسن کو برقرار نہ رکھ سکنے کی دہائی دی، خزاں طویل ہو گئی بہار ’’نیل و نیل‘‘ ہو گئی۔ نمک پاشی ٔ حکومت ہے کہ زخموں کے دہن جلا بھنا رہی ہے، آخر یہ پانچ برس کب پورے ہوں گے، کب صبح شب ِ الم ہو گی؟ پچھلے وچلے اچھے لگنے لگے، اگلے اب دل کو نہیں بھاتے کہ وہ ڈیڑھ برس ہی میں شیخ فرتوت ہو گئے، حکومت رانی ہے کہ حکمرانی ہے مگر ؎

اسے لائی ہماری شامت، لو آ گئی قیامت

دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز کہ پھر سے آ گئی شامت

خان اعظم کا تازہ قول ہے ’’ابھی پاکستان پر مشکل وقت ہے‘‘ شاید یہی وہ بیان ہے کہ شومئی قسمت سے اس میں کوئی یوٹرن بھی نہیں ؎

تنگدستی سے اپنی جان باندھتا ہوں

گیتوں کے وزن پر عنوان باندھتا ہوں

یوٹیلیٹی سٹوروں پر اگر کچھ نہیں ملتا تو ان پر یوٹیلیٹی بل ہی رکھ دیں کہ گاہک کچھ تو گھر لے کر جائیں، ہمارے کرتوتوں کی سزا دنیا کو ملنے لگی ہے، ایسی ایسی بیماریاں پھیل رہی ہیں کہ طبیبوں نے بھی سر پکڑ لئے، ہمارے ہاں جو بیماریاں ہیں وہ طبیبوں ہی نے پھیلائی ہیں۔ نو من تیل نہ ہوتا تو بھی رادھا ناچ لیتی پر اسے ناچنا تو آتا، حالانکہ ہمارا آنگن سیدھا ہے، ناچنے والے ہی ٹیڑھے ہیں۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

’’پی آئی ایں‘‘ کے بعد پاکستان ریلویز بھی!

لگتا ہے پی آئی اے زمین پر اور ریلویز پاتال میں ہے، چیف جسٹس نے جو ’’خراج تحسین‘‘ شیخ ریلوے کو پیش کیا اس کے بعد کوئی اترے نہ اترے، وہ تو ٹرین سے اتر جائیں۔ کیا وہ کہیں سے ماہر وزیر ریلوے کی ٹریننگ لیں گے جو فرماتے ہیں مہلت دیدیں خود کو ٹھیک کرنے کی، اگر معیار پر پورا نہ اترا تو مستعفی ہو جائوں گا، یہ خود کو ایکسٹینشن پر ایکسٹینشن دینا چہ معنی دارد؟ ؎

کیہ اقتدار دا بھروسہ یار

شیخ جی بس کر بس کر یار

لیجئے آپ بھی سنئے ۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ کے پی کے کو ہدایت دیدی کہ برطرف وزرا کو ایک موقع اور دیں۔ جب یہ سبکدوشیاں ہی غلط تھیں تو پھر غلط نوازیوں کی خاطر ایسا کیا ہی کیوں؟ باکمال لوگ لاجواب سروس کی حامل پاکستان ایئر لائنز اب اس ایک اور محکمے کو اس کے سوا کیا کہیں کہ ’’پی آئی ایں‘‘ جب ٹرین جل رہی تھی تو بھی منسٹر کے پَر نہ جلے آخر وزیراعظم کے لئے کچھ لوگ ناگزیر کیوں؟ جسم حکومت کو اینٹی بائیوٹکس دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ پھوڑے، کیل مہاسے دور ہوں اور غریب عوام کی زندگیوں میں ارزانی آئے۔ اگر کوئی ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے تو اسے دور کرنے کا اختیار تو پچھتاوے کے مارے عوام انہیں دے چکے ہیں، اگر تھانے صحیح کام کرتے تو شہر میں ہوائی فائرنگ نہ ہوتی۔ یہی حال ایل ڈی اے کا ہے کہ میرے مشاہدے کے مطابق فتح گڑھ سے ہربنس پورہ تک کچرا اٹھانے کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں، ہمارے دل صاف اور جسم ناپاک ہو چکے ہیں۔ دل کی صفائی تو کمرتوڑ مہنگائی نے ایسی کر دی کہ زہد و تقویٰ عام ہے، یاد آیا کہ یہ جو شہر نگاراں میں بڑے بلکہ بہت بڑے سٹور ہیں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں، کیا یہ صرف حرام خوروں کے لئے کھلتے ہیں اور متوسط عوام کیلئے بند ہونے کے مترادف، چیک اینڈ بیلنس کا ناگہانی طوفانی سلسلہ کون شروع کرے گا؟ وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی اعلیٰ قیادت کی بکس میں تو ہے زمین پر دکھائی نہیںدیتی۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

تازہ ترین کرپشن

٭ F.I.A نے بی آر ٹی منصوبے کی رپورٹ ہائی کورٹ میں جمع کرا دی۔

خدا کرے کہ بی آر ٹی کا سفید ہاتھی کسی کروٹ بیٹھے، ورنہ اسے سوا لاکھ کا کردیا جائے۔

٭ کرپشن آج بھی ہے کل بھی تھی، کم از کم تازہ کرپشن کو تو ownکیا جائے اور ختم کرنے کا چارہ کیا جائے، اس ملک میں ہر حکومت، جرم کی سزا دینے میں ناکام رہی ہے۔ جزا و سزا کا نظام نہ ہو تو عدالتی فیصلے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔

٭ بلاول:ایم کیو ایم وزارتیں چھوڑ کر کراچی پر توجہ دے۔

یہی مشورہ ایم کیو ایم، پی پی کو بھی دے سکتی ہے۔

تازہ ترین