• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتے سے پوری دنیا میں کرونا وائرس کے حوالے سے خوف وہراس پھیلا ہوا ہے، ہر شخص اس نئے اور خوفناک وائرس سے پریشان ہے۔ پاکستان میں اس وائرس سے لوگوں میں بےچینی پائی جاتی ہے۔ اب تک چین میں اس وائرس سے 200کے قریب افراد ہلاک اور 8ہزار سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔ چین کے شہر ووہان میں سانپ اور چمگادڑوں کی وجہ سے کرونا وائرس پھیلا۔ چین کی حکومت نے اس وائرس سے بچائو کیلئے فوری طور پر اسپتال تعمیر کیا جو ایک ہفتے میں تمام سہولتوں اور مشینری کے ساتھ مکمل کیا گیا، یہ ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہے۔ کرونا وائرس کی کوئی ویکسین نہیں ہے، اس سے بچائو کا واحد طریقہ یہ ہے کہ رش والی جگہ پر مت جائیں، ہمیشہ ہاتھ دھوئیں۔ ویسے بھی جو شخص ہمیشہ ہاتھ دھو کر کھانا کھاتا ہے وہ 80فیصد بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ جس شخص کو بخار، نزلہ، کھانسی، گلا خراب ہو اس کے قریب جانے سے گریز کرنا چاہئے۔ کرونا وائرس چین کے علاوہ فرانس، آسٹریلیا امریکہ، تائیوان، جاپان، ملائیشیا، جنوبی کوریا، نیپال اور بھارت میں بھی پھیل رہا ہے جبکہ یو اے ای میں بھی اس کے کیس ظاہر ہو چکے ہیں، پاکستان میں چند ایک مریضوں کے بارے شبہ ضرور ہے تاہم ابھی تک کسی ایک کیس کی بھی تصدیق نہیں ہوئی۔ پاکستان میں اس وقت ہزاروں چینی باشندے کام کر رہے ہیں، پنجاب میں اس وقت 4ہزار کے قریب چینی باشندے رہائش پذیر ہیں جبکہ 11ہزار اہلکار ان کی سیکورٹی پر مامور ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ یہ چینی باشندے ملک کے ہر شہر میں موجود ہیں اور ان کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں بھی چین کے شہر ووہان کے کئی باشندے آئے ہوئے ہیں جن کی اسکریننگ کی جا رہی ہے۔

لاہور اور ملتان میں اب تک تین مشتبہ چینی اور دو پا کستانی مریض مختلف اسپتالوں میں داخل ہیں۔ ضروری ہے کہ جو مریض پاکستان کے مختلف اسپتالوں میں داخل ہیں ان کا علاج کرنے والے عملے کو خصوصی ماسک اور لباس فراہم کیے جائیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کرونا وائرس کی بہت سی اقسام ہیں، یہ تمام وائرس انسان کو متاثر کرتے ہیں اور جان لیوا بھی ہیں۔ 2002ء میں چین میں سارس کرونا وائرس سے 7سو 74افراد ہلاک اور 8ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے۔ اس نئے وائرس کے جینیاتی کوڈ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ رسپائرٹیری سینڈروم سارس سے ملتا جلتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے ہدایت جاری کی ہے کہ کوئی بھی شخص جانوروں کے پاس احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر نہ جائے۔ اس وقت چین کے شہر ووہان میں 5سو پاکستانی طالب علم موجود ہیں حکومت کو چاہئے کہ ان طالب علموں کو جب تک اس وائرس کا حملہ جاری ہے، پاکستان لانے کیلئے انتظامات کرے یا ان کو وہاں پر ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو محفوظ اور صحتمند ہو۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ظفر مزرا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اب تک کرونا وائرس کا کیس سامنے نہیں آیا۔ ہمارے مذہب اسلام میں کس قدر خوب صورت ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’زمین پر حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاو‘‘۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مختلف قسم کے جانور یا ایسی چیزیں کھاتے ہیں جو حلال نہیں، ان سے یقینی طور پر طبی مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس وقت جو چین میں ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ کہا جا تا ہے کہ چین کے شہر ووہان کی سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے کرونا وائرس کا آغاز ہوا، اگر چینی حکام اس پر نظر رکھتے تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت پوری دنیا کو کرونا وائرس سے سنگین خطرہ لاحق ہے اگر اس وائرس کی روک تھام نہ کی گئی تو دنیا کی آبادی کی ایک بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس حوالے سے خصوصی سیل بنائے جہاں چین سے آنے جانے والے افراد کی اسکریننگ کی جائے، تھرمل اسکینر لگائے جائیں۔

گزشتہ ہفتے لاہور میں بنگلا دیش کی کرکٹ ٹیم کا میچ ہوا، میچ تو جس معیار کا تھا اس پر کیا ہی تبصرہ کرنا، اصل مسئلہ تو یہ پیدا ہوا کہ پورے شہر میں کرفیو جیسی صورتحال تھی۔ قذافی اسٹیڈیم سے دس دس کلومیٹر تک پرندے کو پر مارنے کی اجازت نہ تھی۔ حالات یہ تھے کہ قذافی اسٹیڈیم کے پاس جو اسپتال تھے، وہاں بھی مریضوں کو جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ پورے شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم تھا۔ اسکولوں، کالجوں کے طلبہ اور دفاتر میں جانے والے لوگوں کو ان چار روز میں جن مشکلات سے گزرنا پڑا، یہ وہی جانتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت یا تو اسٹیڈیم کے اندر یا اس کے انتہائی نزدیک ترین ہوٹلوں میں غیر ملکی کھلاڑیوں کو رکھے تاکہ شہریوں کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میرے خیال میں شہریوں کو اذیت میں مبتلا کرنے سے بہتر ہے کہ ان میچز کیلئے کوئی علیحدہ نیا شہر بسایا جائے جو صرف اسپورٹس سٹی ہو جہاں دنیا بھر کے کھیلوں کے میچز کروائے جائیں۔ ٹیموں کو وہیں ٹھہرایا جائے، اس اسپورٹس سٹی کے اردگرد کوئی شہری آبادی نہ ہو۔ حال ہی میں جب بنگلا دیش کی ٹیم آئی تو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور سروسزاسپتال میں مریضوں کو لے جانے میں انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑا، بےشمار ایمبولینسیں ٹریفک میں پھنسی رہیں۔ کرکٹ میچ بےشک ضرور کروائیں مگر شہریوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں، ان کے لئے مسائل پیدا نہ کریں، عوام بےشمار مسائل سے دوچار ہیں، اب انہیں مزید اذیت میں مبتلا نہ کیا جائے۔ کاروباری طبقہ بھی ان میچوں کی وجہ سے سخت پریشان تھا۔ لاہور چیمبر نے بھی اس بات کا گلہ کیا ہے کہ میچ قذافی اسٹیڈیم میں ہونا ہوتے ہیں جبکہ تمام دکانیں جو اس روٹ پر واقع ہیں، بند کرا دی جاتی ہیں۔ ایک تو پہلے ہی کاروبار بند ہے، اس قسم کی پابندی سے مزید مسائل پیدا کر دیے جاتے ہیں۔

تازہ ترین