• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدیوں سے بیٹھے ہوئے مطلق العنان بادشاہوں کی حمایت کرنے والے کچھ مغربی دانشور اس کی جمہوریت کو ناکافی سمجھتے تھے لیکن اس کی زندگی کا سب سے بڑا انقلابی جلوس اسی کے جنازے کا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کبھی مرے گا نہیں۔ میرے لئے اس یقین کی بنیاد اللہ کے کلام میں موجود یہ کھلا اعلان ہے ”اور جو دنیا میں لوگوں کی بھلائی کے کام کرتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے“۔
ہوگوشا ویز وینزویلا کی ریاست باریناس کے چھوٹے سے گاوٴں بسانیتا میں اپنی دادی ”روزا“ کے تین کمروں والے دیہاتی مکان میں28جو لائی 1954ء کو پیدا ہوا۔ وہ روایت کا باغی، اسٹیٹس کو کا دشمن، غریبوں کا لیڈر کہلانا پسند کرتا تھا ۔ ہوگوشاویز کی انقلابی جدوجہد نے جہاں پسے ہوئے طبقات کو امید دلا کر حیران کر دیا وہیں اس نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام امپیریل ازم کے بڑوں کو مسلسل پریشان کئے رکھا۔ لا طینی امریکہ میں براہ راست انتخابات کے ذریعے وہ پہلا لیڈر تھا جو 1999ء سے اپنی موت یعنی 5مارچ 2013ء تک ملک کا منتخب صدر رہا۔ وہ ٹی وی پروگرام کرتا تھا، کالم نگار تھا ، شعلہ بیان خطیب اور نہ تھکنے والا کامریڈ ۔ ہمارے اکثر کامریڈ اس وقت تک چپل ،کھدر اور ملیشیا پہنتے ہیں جب تک وہ ارب پتیوں کے کلب کا داخلہ مانگ رہے ہوتے ہیں لیکن ہوگوشاویز نے اپنے لئے ریلوے کے قُلی کے رنگ اور ڈیزائن کی شرٹ پسند کی ۔ اس پنک شرٹ نے بولیویا ، وینزویلا ،کیوبا ، ایکواڈوراور نکاراگوا سمیت لاطینی امریکہ کے طول و عرض کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔
میری سیاسی ڈکشنری میں ایسا شخص کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن لیڈر نہیں جو اپنے سیاسی نظرےئے کے پرچار یا اپنے قومی مسلک کی تبلیغ یا عوامی مسائل پر رائے کے اظہار کو ضرورت کے تابع رکھے یا ایسا وقت جب اسے اپنی بٹالین کو لیڈ کرنا ہو وہ ڈر جائے ۔ خاص طور پر معاشروں اور ملکوں کی قیادت کے لئے پہلی شرط جرأت رندانہ ہے ۔
ہوگوشاویز اس سفر میں پاگل پن کی حد تک جانے والا تھا ۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔ اکیسویں صدی میں جب سوشلزم بظاہر پسپا ہو رہا تھا تو ہوگوشاویز ایک سماجی پروجیکٹ بنا کر لاطینی امریکہ میں سوشلسٹ ریفارمز کا کامیاب انقلاب برپا کر رہا تھا ۔ جب کرہٴ ارضی کی سیاست کے اصل کھلاڑی اسے سرخ مرغے سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے تھے، وہ وینزویلا کو انسانی مساوات کا آئین دے رہا تھا۔ بہت سارے لوگو ں کے لئے یہ شاید حیران کن انکشاف ہو کہ اقوم متحدہ کے جاری کردہ دنیا کے ترقیاتی انڈیکس کے مطابق ہوگوشاویز کی قیادت میں وینزویلا ،غریبوں کی کوالٹی آف لائف کو بلند ترین سطح پر پہنچانے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر تھا۔ شاویز کے سوشلسٹ ایجنڈے نے وینزویلا میں ہیلتھ کیئر کو امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ،جرمنی سے کئی سو فیصد نہ صرف سستا کر دیا بلکہ عوامی سطح پر شراکتی جمہوریت کی کونسلیں تشکیل دے کر شاویز نے دنیا بھر میں غربت میں کمی کا موٴثر ترین حکومتی ماڈل بھی متعارف کرایا۔
غریبوں کے اس دیوانے لیڈر کی دیوانگی یہیں ختم نہیں ہوتی، اس نے جا گیردارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ لاطینی امریکہ یا شاید دنیا کے بے شمار دوسرے ممالک میں موٴثر ترین زرعی اصلاحات شاویز نے ہی نافذ کیں۔ یہ شاویز کا پاگل پن ہی تھا کہ اس نے وینزویلا میں کھانے ، پینے ، پہننے اور عوام کی دوسری ضروریات کی پیداوار سے متعلقہ صنعت کو قومی ملکیت میں لے لیا ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ لاطینی امریکہ میں مافیاز اور گینگسٹرز ، ایلکا پون کے بھی دادا ہیں۔ ان کھل نائیکوں کی موجودگی میں باقی لیڈر دنیا کے جس خطے میں باہر نکلنے سے بھی گھبراتے ہیں وہاں شاویز کھلی پک اپ پر چڑھ کر ریلیوں کی قیادت کرتے ہوئے عوامی وانتخابی مہمیں چلاتا ۔ اس کے پاگل پن کی انتہا تب دیکھنے میں آئی جب امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور شاویز نے اقوام متحدہ سے خطاب کیا۔ شاویز نے جذباتی امریکی صدر کو مزید مشتعل کرنے کے لئے اسے سرکاری تقریر میں گدھا کہہ کر پکارا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ لاطینی امریکہ کا یہ لیڈر خود اپنے عوام کی خدمت میں ساری زندگی گدھے کی طرح جُتا رہا۔
دو دن پہلے ٹیلی فون پر سید منورحسن صاحب نے بتایا کہ وہ حال ہی میں ترکی میں تھے۔کہا کہ ترک قوم کو معلوم ہے اس نے کہاں پہنچنا ہے اور اس کی سمت کیا ہے؟ یہ کو ئی راز نہیں کہ ترکی نے ایک جمہوری ماڈل کو اپنے عوام کے لئے منتخب کیا پھر اس پر چل پڑے۔ اس کے لیڈر جہاں شام کے تنازعے میں مغرب کا ساتھ دے رہے ہیں وہیں انہوں نے عراق پر حملے کے لئے امریکہ کو راہ داری دینے سے انکار کیا تھا حالانکہ پچاس ارب ڈالر کا بل ان کے سامنے تھا۔ شاویز نے بھی اپنے ملک کے لئے مساوات پر مبنی حکومت کا ایسا ماڈل ترتیب دیا جس کی عمارت نئے آئین پر اٹھائی گئی اور اس کے ذریعے نچلے طبقات اور گروپوں کو براہ راست حکومتی ایوانوں میں نمائندگی مل گئی۔
شاویز نے بو لیوین مشن، کمیونل کونسلز ، ورکرز کو آپریٹوز بناکر کالی، سفید اور خاکی بیورو کریسی کو ان کے تابع کیا۔ اس نے پڑوسیوں کے خلاف اٹھائے گئے سارے گنڈاسے دفن کئے، تلواریں توڑیں ۔لاطینی امریکہ میں کیربِیَن کو آپریشن ،ساوٴتھ امریکن اقوام کی پان ریجنل یونین کے ساتھ ساتھ بو لیوین الائنس فا ر امریکان کے علاوہ بنک آف ساوٴتھ اور لاطینی امریکہ کا ٹیلی وژن نیٹ ورک ”ٹیلی سار“بنایا۔ کولمبیا اور ایکواڈور سے شیطانی جھگڑے ختم کئے۔ آج شاویز مر گیاہے لیکن اس نے مری ہوئی قوم کو غربت کی وادیٴ موت سے نکال کر جینے کی شاہراہ پر دوڑا دیا۔ ملکوں، معاشروں اور سماجوں کے قائد وہ نہیں ہوتے جو اپنی زندگی بچانے کے لئے قومیں مروا دیں۔ چند سانسوں کے عوض میدان میں سرینڈر کریں بلکہ تاریخ ان کو لیڈر مانتی ہے جو خود قربان ہو کر اپنی نسلوں کو پریشان ہونے سے بچاتے ہیں۔
پاکستان کی پہلی بدبختی یہ ہے کہ اس کا نقشہ وہ نہیں رہا جو قیام پاکستان کے وقت تھا لیکن اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ کہ ایشیاء کی تاریخ کے سب سے بڑے جغرافیائی سانحے سے بقیہ پاکستان کے کرتا دھرتاوٴں نے کو ئی سبق سیکھنے سے انکار کر دیا۔آج پاکستان میں غریبی اور امیری کے درمیان ایسے جزیرے بن گئے ہیں جن کی فصیلیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ عام آدمی قومی اداروں کے ایجنڈے پر ہی نہیں ہے۔ اصحاب اختیار اپنے آپ کو فاتحین سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو اپنے قیام کے پہلے مہینے میں سونے اور جواہرات کے ٹرک دے کر اسٹیٹ بنک ، منٹ آف پاکستان اور کرنسی نوٹ بنوانے والے نواب آف بہاولپور کے فرزند صلاح الدین عباسی کی آواز صدا بہ صحرا ہے۔
انسانوں کے قتل پر بے رحم رویّے روزانہ کی روٹین ہیں ۔ ریاست ایسی سوتیلی ماں کا کردار ادا کر رہی ہے جس کے بچے بے وارث ، لاپتہ شناخت اور گم کردہ راہ ہیں۔ نجانے وہ ماں کہاں چلی گئی ہے جو بچوں پر چلنے والی گولی کا درد اور چرکہ اپنے جگر میں محسوس کرتی تھی۔
بچوں پہ چلی گو لی
ماں دیکھ کے یہ بو لی
یہ دل کے میرے ٹکڑے
یو ں روئیں میرے ہوتے
میں دور کھڑی دیکھوں
یہ مجھ سے نہیں ہو گا
وطن ِ عزیز کی تاریخ ارتقاء کے تیسرے مر حلے میں داخل ہو رہی ہے ۔جہاں اندرونِ ملک اور بین الاقوامی طور پر ریاست و معاشرت کی بقاء کا سوال پوری شدت سے اٹھایا جا رہا ہے۔ بے یقینی کے کالے بادل ہر دل کو ہلکان اور ساری دنیا کو پریشان کر رہے ہیں لیکن قومی اداروں کے ریفری دوست نوازی کی نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شریک ہیں۔
قومیں امید کے شعلے پر مستقبل کی شمع جلاتی ہیں۔ ایسے گروہ جو اپنے آپ سے ڈرتے ہوں انہیں تیر، تفنگ، توپ، گو لہ باری یا ایٹم سے مارنے کی ضرورت کبھی نہیں ہوتی ۔ بحیثیت قوم اور معاشرہ ہم قومی زندگی کا نیا راوٴنڈ شروع کر رہے ہیں۔ جس میں تیاری کا یہ عالم ہے کہ کوئی گھر محفوظ ہے نہ گلی۔من گھڑت تاریخ اور بری طرح سے تقسیم مذہبی نصاب پڑھنے، سیاسی ضد بازی میں علاقوں کی تقسیم پر اَڑنے والے گروہوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس صدی کی عالمی مقابلے بازی کی ریس میں قوم کی حیثیت سے باعزت مقام پائیں گے۔ کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ ،اس پر کچھ کہنے کی گنجائش کہاں ہے؟ پانچ سال بعد آٹھ کروڑ ووٹرز، بیس کروڑ ہم وطنوں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا جب ہمیں ایسی آواز میسر آئے جو حرص ، ہوس ، خوف ، دھمکی، دولت ، مفاد اور لالچ سے اوپر اٹھ کر ایسا سماج بنائے جہاں تاریخ کے چہرے پر یہ لکھا ہو
اس نے کہا خونخوارو
دولت کے پرستارو
دھرتی ہے یہ ہم سب کی
اس دھرتی کو نادانو!
انگریز کے دربانو!
صاحب کی عطا کردہ
جاگیر نہ تم جانو
کیوں چند لٹیروں کی؟
پھرتے ہو لئے ٹولی
تازہ ترین