• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواب سارے اُڑ گئے، آنکھوں کے دریا سوکھ کر صحرا بنے

روشنی پر بند دروازے ہوئے

کون ظالم تھا، جو خوشیاں چھین کر سب لے گیا

ننّھے بچّوں کےمہکتے، کھلکھلاتے ہونٹوں پر

کلکاریوں کے بند دروازے کیے

جھومتا تھا یاں جو بھالو، چیختا پھرتا ہے آج

ٹائیں ٹائیں توتے کی مجروح ہے

تتلیاں باندھے قطار آئی تھیں جو

آنے والے دن کی آہٹ سونگھ کر

پھڑپھڑاتی ہیں، تڑپتی ہیں، سِسکتی ہیں

چکّروں کے ساتھ گرتی ہیں

اور اس دھرتی پہ ان کی لاشوں کا بازار سجتا ہے

جو دس پیسے کی تھی، اب مفت لے جاؤ

یہ کاروبارِ ہستی، بے کراںہستی

غضب اور خوف اور دہشت کے بینا اور نا بینا

زمیں کو گھومتے تیروں کے اندیشوں میں رکھتی ہے

نئی ہستی، نئے ہتھیار

اور اس پر خوف کی یلغار

تھر تھر کانپتی ہستی، یہ پَل پَل ہانپتی ہستی

گھروں کے سارے پردے کھینچ کر اندر سمٹ کر بیٹھتی ہستی

دریدہ سر،پھٹی آنکھوں میں مٹی جھونک کر خود سے یہ کہتی ہے،

یہی ہے تیری رعنائی کا قصّہ، فتح کے عنواں کا آئینہ

برستی آگ کی دھمکی میں ہر دم جلتے رہنا

سمجھنا ،ایسا تو ہر گز نہیں ہوگا

ہماری بے کراں ہستی کبھی بجھنے نہ پائے گی!

ہماری بے کراں دانش کےلچّھوں میں زمیں کی گردشوں کا رازِ لافانی

ہماری جستجوئے حُسن پر بد صُورتی غالب نہ آئے گی

ہاہا، یہی ہوگا؟ یقیں ہے، یہ تمہاری دانشِ خوش فہم جیتے گی…ہاہا!!

تازہ ترین