• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک ایران گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دونوں ملکوں کے صدور نے امریکی خدشات، تحفظات اور امریکی پابندیوں کے خطرات کو نظر انداز کرکے جرأت مندانہ انداز میں دستخط کردیئے ہیں۔ دستخطوں کی تقریب کے بعد اس بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کا پبلک موقف بھی سامنے آگیا ہے جس میں وکٹوریہ نولینڈ نے اپنے پرانے موقف، اعتراض اورامریکی پابندیوں کے قانون کا ذکرکرتے ہوئے اس معنی خیز جملے کا بھی اضافہ کیا ہے کہ ”ماضی میں بھی ہم نے اس پائپ لائن کے بارے میں10 تا 15 مرتبہ اعلانات سنے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ عملاً کیا ہوتا ہے؟“ ظاہر ہے ایران اور صدر احمدی نژاد تو ایک عرصہ سے امریکی ناراضی اور پابندیوں کا شکار چلے آ رہے ہیں انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اس صورتحال سے خوشی ہوئی لیکن صدر زرداری کا اپنی پارٹی کی حکومت کے خاتمے سے چند گھنٹے قبل انتخابی بخار، عدم استحکام اور معاشی بدحالی کے شکار پاکستان کے نمائندہ کے طور پر دستخط کرنا بہت سے سوالات اور اندیشوں کو جنم دیتا ہے کہ نگران حکومت اور انتخابات کی صورت میں نئی منتخب حکومت اس پائپ لائن معاہدے کی ذمہ داریاں، امریکی ناراضی یا ممکنہ پابندیوں کا سامنا کرسکے گی؟ اگر نئی مخلوط حکومت میں پی پی پی شامل ہوئی تو پھر امریکی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کے بیان کے مطابق ماضی کے اعلانات کی طرح یہ معاہدہ بھی بلوچستان کی سرزمین سے گزرتے ہوئے محض ایک مزید اعلان کا روپ دھار سکتا ہے۔ امریکی بھی خوش اور صدر زرداری بھی مطمئن ہوں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آج سے تین سال قبل ”رینٹل پاور“ کے کھیل سے انرجی کے بحران کو حل کرنے کے اعلانات و اقدامات کے بجائے اگر امریکیوں کے ساتھ موثر مذاکرات کے ذریعے یا تو پاکستان کے انرجی بحران کے کوئی امریکی حل اور تعاون کا مطالبہ کیا جاتا یا پھر چین اور بھارت کی طرح ایران پاکستان پائپ لائن کے ذریعے گیس کی خریداری پر امریکہ سے رعایت اور اتفاق رائے حاصل کرلیا جاتا۔ بہرحال پاک ایران پائپ لائن دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان ایک عملی، مفید اور کم قیمت انرجی کے بحران کا ایک عملی حل ہے مگر آج کے عالمی اور علاقائی حالات کی عملی دنیا میں امریکی منظوری کے بغیر ایسے معاہدے پر عملدرآمد، صدر زرداری، انتخابات، نئی مخلوط حکومت کیلئے ممکن نظر ہی نہیں آتا۔ تلخ نوائی معاف امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک میں اپنی دولت اور اثاثے رکھنے والے حکمران تو اہل مغرب کی ناراضی برداشت کرنے کی جرأت ہی نہیں کرسکتے۔ وراثت میں ملنے والے اثاثے اور دولت کیلئے ان ملکوں میں جو قانونی سرٹیفکیٹ برائے وراثت جاری ہوئے ہیں ان کی منسوخی یا متنازع بنانے میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگے گا اور نئی اضافہ شدہ دولت اور اثاثوں کو بھی منجمد کرنے میں بھی ”عوامی مفاد“ اور انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوئے شاہ ایران، فلپائن کے حکمراں مارکوس اورافریقہ اور ایشیاء کے متعدد ملکوں کی عوامی دولت کے لٹیرے حکمرانوں کے جمع کردہ اثاثوں سے ہونے والے سلوک کی تاریخ اور ریکارڈ دیکھ لیں۔ دور کیوں جائیے مصر کے حسنی مبارک، لیبیا کے معمر قذافی کے غیر ملکوں میں اربوں ڈالر کے خفیہ اثاثے اب کہاں اور کس کے کنٹرول میں ہیں اور کس کے استعمال میں ہیں؟ جس طرح یہ حکمراں اپنے ملکوں میں قانونی موشگافیوں اور تاویلات کے ذریعہ عوامی دولت لوٹ کر غیر ممالک میں اثاثے اور بینک اکاؤنٹ بناتے ہیں اسی طرح ان غیر ملکوں میں بھی قانونی تاویلات کے ذریعہ ان خصوصی شخصیات کی ناجائز دولت کے اثاثے بھی منجمد کرکے قومی تحویل میں لینے کے قانونی طریقے بھی موجود ہیں اور خاموشی سے استعمال ہوتے رہتے ہیں۔
دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے بارے میں میرے گزشتہ کالم کے بارے میں قارئین نے جہاں بڑی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے وہاں بعض قارئین نے اختلاف بھی کیا ہے۔ ان میں تفصیلی ای میلز25سال سے کینیڈا میں آباد دہری شہریت والے برہان خان، حسن فاروقی نے بھیجی ہیں۔ برہان خان اوورسیز پاکستانی فورم کینیڈا نامی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ 25 سال کینیڈا میں رہنے کے باوجود پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں اور دہری شہریت میں وفاداری کا کوئی تضاد محسوس نہیں کرتے پاکستان ان کے لئے ماں ہے اور کینیڈا ان کے لئے وہ پیاری بیوی ہے جس نے ان کو اپنے بھائی بہنوں کی پاکستان میں خدمت کرنے اور کینیڈا میں اپنی زندگی گزارنے میں سہارا دیا جبکہ میرے والد پاکستان میں افراط زر کی شرح کے ہاتھوں ہی مشکلات کا شکار تھے لہٰذا میری وفاداری اسی طرح غیر تقسیم شدہ ہے جیسے میری محبت میری ماں، میری بیوی اور میرے بچوں کیلئے غیر منقسم ہے۔ انہیں سپریم کورٹ کے طاہر القادری کیس میں دیئے گئے ریمارکس اور فیصلے سے اختلاف اور غصہ بھی ہے۔ اسی طرح حسن فاروقی نے بھی لکھا ہے کہ دہری شہریت کے باعث میری وفاداری کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ آصف زرداری، نوازشریف، پرویز مشرف اور عمران خان جیسے سنگل پاکستانی شہریت کے حامل لیڈران سعودی عرب، دبئی، فرانس، انگلینڈ وغیرہ جیسے ہر مغربی ملک میں قابل قبول اور بآسانی رہتے ہیں مغربی ممالک کیلئے ان کی وفاداری پر توجہ کی ضرورت ہے۔ میں تو جدوجہد کرکے کینیڈا آیا تھا۔ ان کا کہنا درست ہے اور میں نے اپنے کالم میں بھی یہی عرض کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے طاہر القادری کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کی درخواست دائر کرنے کی نیت اور ان کا ماضی کا ریکارڈ اورساکھ کے تناظر میں ریمارکس دیئے ہیں کیونکہ درخواست دائر کرنے والے کی ذاتی ساکھ اور نیت عدالتی فیصلوں میں ایک اہم عنصر ہوتا ہے لہٰذا میری رائے میں طاہر القادری کے کیس میں فیصلہ اور ریمارکس طاہر القادری کی ساکھ محرکات درخواست اور دہری شہریت کے حوالے سے ہیں اور ہر دہری شہریت والے پاکستانی پر اطلاق نہیں ہے اور نہ ہی طاہر القادری صاحب دہری شہریت والے پاکستانیوں کے نمائندہ تھے۔ حسن فاروقی صاحب بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی ملکوں میں آباد اور دہری شہریت والے عام پاکستانی ہر ماہ ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جبکہ پاکستان میں سنگل پاکستانی شہریت کے دعویدار کرپٹ پاکستانی حکمراں، بیورو کریٹس اور سیاستدان پاکستان میں لوٹ مار کرکے کرپشن کی دولت پاکستان سے باہر نکال کر غیر ملکوں میں جمع کررہے ہیں۔ گویا دہری شہریت والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد محنت سے کمائی کرکے غیر ممالک میں زندگی گزار کر بھی پاکستان سے محبت اور لگاؤ کا ثبوت دے رہے ہیں لیکن یہ بھی نہ بھولئے کہ پاکستانی حاکموں کے بعض کرپٹ دوست اور رشتہ دار بھی ان غیر ممالک میں دہری شہریت کے حامل ہیں اور وہ کرپٹ حاکموں کے فرنٹ مین بھی ہیں جس کیلئے وہ دہری شہریت کا بھرپور استعمال کرتے ہیں اسی طرح بعض مٹھی بھر وہ پاکستانی بھی دہری شہریت رکھتے ہیں جو پاکستان کی خدمت کے نام پر پاکستان جاتے ہیں حکومتی عہدے، مراعات، وزارتیں حاصل کرکے نہ صرف مزے کرتے ہیں بلکہ غیر ممالک میں اپنا مرتبہ بھی بلند کرتے ہیں اور پھر حکومتی تبدیلی کے ساتھ بھی وہ پھر واپس امریکہ یا کینیڈا جاتے ہیں ایسے درجنوں نام گنے جاسکتے ہیں۔ یہ تمام سابق وزیر، مشیر، ماہرین پاکستان گئے، بہت سے پہلے سے زیادہ مالدار ہو کر واپس امریکہ لوٹے۔ بے نظیر بھٹو شہید اس سلسلے میں واشنگٹن ڈی سی کے عبداللہ رائر (سابق سینیٹر پاکستان) اور ریاست وسکانسن کے ڈاکٹر بھٹی کا حوالے دیا کرتی تھیں لہٰذا دہری شہریت والوں میں بھی پاکستانی غریب عوام اور کرپٹ حکمرانوں والا فرق موجود ہے۔ مٹھی بھر موقع پرست دہری شہری والے لٹیرے حکمرانوں کے ساتھی ہیں جبکہ دہری شہریت والے بڑی واضح اکثریت میں پاکستانی عوام کی طرح مخلص محنتی اور پاکستان سے محبت کرنے والے ہیں اور اس کی بڑی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔
تازہ ترین